بربرا: پیرس کی شہزادی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بربرا کی آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں تھا۔ وہ بات بات پر رو پڑتی اور اسے دیکھ کر انٹرویو کرنے والے عرب عالم دین الشیخ فہد الکندری کے بھی آنسو جاری ہو جاتے۔ بربرا پیرس کی 24 سالہ شہزادی ہے۔ فیشن کے اس مرکز میں پلنے بڑھنے کے باوجود اس کا دل یقین و ایمان کے نور سے منور ہے اور یہی اس کی متاعِ حیات ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا، پھر اس راہ میں آنے والی ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
عشق میں تیرے کوہِ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
میڈیا ہاتھ دھو کر اس معصوم لڑکی کے پیچھے پڑ گیا۔ الزامات و اتہامات کی بوچھاڑ ہوگئی۔ کردار کشی کا ہر حربہ استعمال کیا گیا، مگر ربّ کی اس عاشق کے پایۂ استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ ایمان کی حلاوت، یقین کی قوت اور توحید کا نشہ چیز ہی ایسی ہے کہ صنف نازک کے وجود میں بھی ایسی بجلی بھر دیتی ہے کہ وہ سمیہ کی طرح وقت کے ابوجہلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ببانگ دہل اعلان کرتی ہے کہ
خِرمنِ قوم کو حسرت سے تکتا ہوں کہ آج
شعلۂ تف ہے میری گرمیٔ افکار سے!
بربرا ایک قدامت پرست کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئی۔ شیخ فہد الکندری کو ایک انٹرویو میں اس کا کہنا ہے کہ میرا ربّ سے تعلق بہت گہرا تھا۔ لیکن اس کے قرب کی کوئی راہ نہیں پاتی تھی۔ اسی جستجو میں رہتی تھی کہ مجھے اس کا قرب اور معرفت کیسے حاصل ہو۔ کالج کی تعلیم مکمل کرکے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں ایک مراکشی طالبہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ برائے نام مسلمان تھی۔ مغربی کلچر اور جدید رنگ میں رنگی ہوئی۔ اسے اسلام کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ اس دین سے متعلق میں وہی کچھ جانتی تھی، جو مغربی میڈیا میں بتایا جاتا ہے۔ یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خونی اور جنونی مذہب، اس کے پیروکار انسانی خون کے پیاسے، اس کی شریعت تعصب و تشدد کی داعی۔ بس میرے ذہن میں بھی اسلام کا یہی نقشہ ثبت تھا۔
ایک مرتبہ میری اس مراکشی دوست نے مجھے چھٹیوں میں اپنے وطن جانے کی دعوت دی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس کے ساتھ مراکش جانے کا پروگرام بنالیا۔ لیکن وہاں پہنچ کر میں حیران رہ گئی۔ مراکشی لوگوں نے میرے ساتھ جو برتائو کیا اور جس حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا، اس نے اسلام کے بارے میں میرے سارے خیالات پلٹ دیئے۔ ہر کوئی بچھا جا رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک گھر میں دعوت ہو رہی ہے۔ گویا کہ میں کوئی شاہی مہمان ہوں۔ ایسی محبت جو مغرب میں کوئی اپنی سگی اولاد کو بھی نہیں دیتا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ مجھے اپنی پلکوں میں بٹھالیں۔ میڈیا تو ہر وقت مسلمانوں کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرتا ہے، لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں کسی اور سیارے میں اتری ہوں۔ میں مسلمانوں کے اس رویئے سے بہت زیادہ متاثر ہوگئی۔ واپس جا کر میں نے اسلام پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالکل خالی الذہن ہوکر۔
ابتدا قرآن کریم سے کی۔ فرنچ ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ چھ ماہ جاری رہا۔ ابھی حدیث اور سیرتِ رسولؐ کی باری آئی نہیں تھی کہ میری روحانی حالت بدلنے لگی۔ قرآن میں میرے ہر اشکال کا جواب ملنے لگا۔ ساتھ میں قلبی سکون و اطمینان کا احساس بھی رگ و رویشے میں سرایت کرنے لگا۔ ایک رات حسب معمول میں قرآن کا مطالعہ کر رہی تھی کہ دل میں خیال آیا کہ بربرا! کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ تم کلمہ شہادت پڑھ لو۔ یہ سوچ کر ہی مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ ہرگز نہیں تھا کہ انسان اپنے اس مذہب کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے، جس کی تعلیم ماں سے گود میں اسے دی گئی ہو اور اپنے جدی پشتی عقیدے کو خیرباد کہہ دے، پھر یہ کوئی صرف زبانی کلامی دعویٰ بھی نہیں، بلکہ خود کو اس کے رنگ میں رنگنا اور اس قالب میں ڈھالنا بھی پڑے گا۔ کیا فرانس کے اس ماحول میں میرے لیےیہ ممکن ہے؟ ان خیالات میں دیر تک کھوئی رہی، پھر میں نے فیصلہ کرلیا، جو ہو سو ہو، دیکھا جائے گا، جب حق واضح ہو چکا ہے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہہ کر میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اگلے دن نماز کے وقت میں قریبی مسجد پہنچ گئی۔ میں نے حجاب وغیرہ بھی نہیں کیا تھا، بلکہ جینز پہن رکھی تھی۔ نماز کے بعد میں ڈائریکٹ امام صاحب کے پاس محراب پہنچ گئی۔ امام صاحب کو فرنچ زبان نہیں آتی تھی۔ ایک نمازی نے مجھ سے پوچھ کر انہیں بتایا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔ وہ بڑے اچھے انسان تھے۔ میری بات بڑی توجہ سنی، لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک دوسرے بھائی آگئے۔ انہوں نے کہا کہ آج بدھ کا دن ہے، آپ جمعہ تک مزید غور و فکر کرکے آجائیں۔ میں نے مزید کیا سوچنا تھا، بہرحال میں واپس گھر آگئی اور جمعہ کو پھر مسجد پہنچ گئی۔ نماز کے بعد سب کے سامنے میں نے کلمہ پڑھ لیا۔ الحمدللہ!
اسلام قبول کرنے کے بعد بربرا کو جو کیفیت محسوس ہوئی، جس خوشی و طمانیت اور روحانی مسرت کا احساس ہوا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ کہتی ہے کہ اگر مجھے اسلام کی دولت نہ ملتی تو میرا کیا بنتا، ربّ کی معرفت اور تقرب کے بغیر زندگی تو بے معنی ہوتی۔ اب اگر میرے پاس دنیا کی کوئی بھی مادی شے نہ بھی ہو تو میرے لیے یہی ایمان کی دولت کافی ہے۔ اس خوشی کو بیان کرنے کے لیےمیرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ اسلام نے میری شخصیت کو مضبوط کردیا ہے، میں دوسروں کی مدد کرتی ہوں، لیکن اس کے باوجود اکثر میں اس خیال سے روتی رہتی ہوں کہ اگر میں اللہ کو نہ پاتی تو میرا کیا بنتا (یہ کہہ کر بربرا خود بھی روتی ہے اور شیخ فہد پر بھی رقت طاری ہوجاتی ہے۔)
بربرا کے لیے سب سے مشکل لمحہ اپنے والدین کو قبولِ اسلام کے بارے میں بتانا تھا۔ اس نے بلاجھجھک پہلے والدہ کو فون کرکے بتایا اور نتائج کی کوئی پروا نہیں کی۔ حسبِ توقع والدین کی طرف سے شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر فرانس کے ماحول میں حجاب پہننا بھی ایک بڑا امتحان تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلا ہفتہ تو بہت مشکل سے گزرا۔ ہر جاننے والا مجھے ٹوکتا، آتے جاتے لوگ بھی مذاق اڑاتے۔ مگر میں نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔ بہرحال رفتہ رفتہ اس کی عادت ہوگئی۔
اس کے بعد میں نے اسلامی احکام کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ بنیادی تعلیمات کے بعد میں نے دین کا مکمل علم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ دوسروں کو بھی دعوت دے سکوں۔ میں نے مختلف اسلامک سینٹرز اور ائمہ کرام سے کورسز شروع کیے ۔ اپنا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ اس کے بعد میں نے خواتین میں دعوت کا کام شروع کیا کہ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نومسلم خواتین کی نظریاتی تربیت کے ساتھ انہیں ریاض الصالحین، متن الاربعین جیسی کتب حدیث پڑھاتی ہوں۔
بربرا کے انٹرویو کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوچکی ہے۔

Related Posts