بینکوں کو زرعی شعبے میں اپنی رسائی اور رسوخ بڑھانا ہوگا ، گورنر اسٹیٹ بینک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: زرعی قرضے کی مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کا سالانہ اجلاس لاہور میں 14 دسمبر 2023ء کو ہوا جس کی صدارت گورنر بینک دولت پاکستان جمیل احمد نے کی۔ افتتاحی کلمات میں گورنر نے شعبہ زراعت کو ، جو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے، مستحکم بنانے اور اس کی نمو کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ کاشت کاروں کے لیے کریڈٹ، ڈپازٹس، ادائیگیوں وغیرہ سمیت تمام مالی خدمات تک آسان، بروقت اور ہموار رسائی کو یقینی بنائیں۔

گورنر نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ سیلاب سمیت مختلف مشکلات کے باوجود مالی سال 23ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم سال بسال 25.2 فیصد نمو کے ساتھ 1776 ارب روپے کی متاثر کن سطح تک پہنچ گئی۔ بینکوں کا مجموعی ہدف 1819 ارب روپے کے قرضے جاری کرنا تھا تاہم انہوں نے 97.6 فیصد ہدف پورا کیا۔ انہوں نے بینکوں، اسپیشلائزڈ بینکوں، مائکرو فنانس بینکوں اور مائکرو فنانس اداروں کی مربوط کاوشوں کو سراہا جن کی بنا پر یہ کامیابیاں حاصل ہوئیں اور یہ ثابت ہوا کہ اس شعبے میں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی مضبوطی اور لچک موجود ہے۔ گورنر نے زرعی شعبے میں مضبوط بحالی کے لیے بھی امید کا اظہار کیا، جس سے مالی سال 24ء کے لیے تخمینہ کردہ 2 سے 3 فیصد تک حقیقی جی ڈی پی نمو کی راہ ہموار ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ مالی سال 24ء کے لیے قرضوں کی تقسیم کا ہدف 2250 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو گذشتہ برس تقسیم کیے گئے قرضوں سے 26.7 فیصد زائد ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی تا اکتوبر 2023ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم میں 30 فیصد کی شاندار نمو ہوئی ہے جس سے امید ہے کہ ہم اپنا ہدف بآسانی حاصل کرلیں گے۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ نہ صرف ہدف پورا کرنے بلکہ اس سے آگے بڑھنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔

گورنر جمیل احمد نے درپیش چیلنجوں، بالخصوص قرض گیروں کی تعداد میں کمی کا اعتراف کرتے ہوئےکمیٹی کو آگاہ کیا کہ زرعی قرض گیروں کی تعداد میں پائیدار اضافے کے لیے منصوبے اور حکمت عملی کی تیاری میں اسٹیٹ بینک ہر بینک کے ساتھ انفرادی طور پر رابطہ رکھے گا۔ گورنر نے بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ زرعی قرضے کی نہ صرف اپنی استعداد بڑھائیں بلکہ زراعت اور دیہی قرضوں کی رسائی بڑھانے کے لیے مائکرو فنانس اداروں کے ساتھ بھی اشتراک کریں۔

انہوں نے کاشت کاروں کی پیداواری صلاحیت بہتر بنانے کی اہم ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کاشت کار بینکوں کے لیے بہتر اور مناسب قرض گیر طبقہ بن سکیں۔انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ زراعت کے تکنیکی اداروں، زرعی یونیورسٹیوں، صوبائی زرعی محکموں اور دیگر زرعی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور اشتراک کریں تاکہ معیاری خام مال کی فراہمی، کاشتکاری کے بہتر طریقوں اور زرعی ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے ذریعے کاشت کاروں کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکے۔ چھوٹے کاشت کاروں کو بھی ان کی پیداوار کی فروخت میں سہولت دینے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنی پیداوار پر مارکیٹ کی مسابقتی قیمت مل سکے اور بینک انہیں بڑے اور معروف خریداروں سے جوڑ سکیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک اور اہم شعبے ترقیاتی قرضوں کے فروغ کی نشاندہی کی جس پر فوری متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، خاص طور پر زرعی شعبے میں مشینوں کے استعمال کے لیے۔ انہوں نے بینکوں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ زرعی خدمات کی فراہمی کے اداروں کو قرضے دینے کی فیزیبلٹی کا جائزہ لیں۔ یہ ادارے کسانوں کو کرایہ پر زرعی مشینری اور آلات دیتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی کمزور حالت کا ذکر کرتے ہوئے گورنر نے اسٹیٹ بینک کے ماحول دوست (گرین) اقدامات پر متوجہ کیا جن میں ماحولیاتی اور سماجی رسک مینجمنٹ امپلی منٹیشن مینوئل، قابل تجدید توانائی کے لیے قرضہ اسکیم اور ماحول دوست بینکاری ہدایات شامل ہیں۔ انہوں نے بینکاری صنعت پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے سرگرمی سے کام لیتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی سے سامنے آنے والے خطرات کو کم کرنے کے آلات اور بیمہ اسکیموں پر متوجہ ہو اور بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کے ساتھ اشتراک کر ے ۔

گورنر نے زرعی قرضے کے شروع سے آخر تک خود کار ایکو سسٹم کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر ڈجیٹل طریقوں میں اتنی اہلیت ہے کہ زرعی قرضے دینے کا عمل ہموار اور زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کامیابی کے حصول میں ڈجیٹلائزیشن کا اہم کردار تسلیم کرتے ہوئے تمام بینکوں پر زور دیا کہ وہ زرعی قرضوں کی پروسیسنگ کے لیے پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی (پی ایل آر اے) کے لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایل آر ایم آئی ایس) کو جون 2024ء کے اختتام تک پوری طرح اپنالیں۔ انہوں نے دیگر صوبوں / خطّوں پر بھی زور دیا کہ وہ بھی اپنے لینڈ ریکارڈ کی ڈجیٹلائزیشن میں تیزی لائیں تاکہ قرضوں کی تیزی سے پروسیسنگ کے لیے وہ بینکوں کے ساتھ مربوط ہو سکیں۔

یوٹیلٹی سٹورز پر تیل اور گھی کی قیمتوں میں کمی

زرعی قرضے کی مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی) کا اجلاس 70ء کی دہائی سے اسٹیٹ بینک کی سالانہ روایت ہے۔ حالیہ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سینئر حکام، بینکوں کے صدور/سی ای او، صوبائی ایوان ہائے زراعت کے ارکان، علاقائی کاشت کار برادریوں کے نمائندوں اور اسٹیٹ بینک کے سینئر حکام نے شرکت کی۔

Related Posts