بنگلادیش میں پہلی بار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی مناکر یہ پیغام دیا گیا کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا اور نہ ہی بنگلادیش وجود میں آتا، خوش آئند بات تو یہ ہے کہ تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد سمیت زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور قائد اعظم پر لکھی گئی ایک نظم بھی پڑھی گئی۔
بنگلہ دیش میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی کی تقریب کو اگر اس کی روح کے مطابق دیکھا جائے تو اس کا گہرا اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ یہ بنگال ہی تھا جس نے قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کو مضبوط کیا اور اس کو دوام بخشنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔
بنگال نے ہی 1909جداگانہ طرز انتخاب کا مطالبہ پیش کیا، بنگالی مسلمان اکابرین نے یہ مطالبہ کیا کہ تمام مسلمانوں کیلئے الگ انتخابی نظام ہونا چاہیے اور اسی کے تحت انڈین کونسل ایکٹ بنا۔یہ بنگالی لیڈارن ہی تھے جنہوں نے 1906میں انڈیا مسلم لیگ کے قیام اور جدو جہد آزادی کی تحریک کو جلابخشی۔
لکھنو پیکٹ میں بنگالی مسلمان لیڈران کا کردار سب سے نمایاں رہا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی آواز کے ساتھ اپنی مضبوط آواز ملاکر مسلمانوں کیلئے پلیٹ فارم کی تشکیل کی طرف پیش قدمی کی۔
ایسی ہی ایک مثال یہ ہے کہ جب خلافت کی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت کے بنگالی اکابرین نے خلافت عثمانیہ کا بھرپور ساتھ دیا کیونکہ بنگالی مسلمان لیڈران انتہائی دور اندیش اور وقت و حالات پر گہری نظر و گرفت رکھتے تھے۔خلافت عثمانیہ کے قیام میں بھی بنگالی رہنماؤں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے 14 نکات کا وقت آیا تو اس میں بھی بنگالی لیڈران نے کلیدی کردار اد اکیا اور 1940ء میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو اس وقت بھی اے کے فضل حق، خواجہ ناظم الدین نے قرارداد کو آگے بڑھایا۔ بنگال کے مسلمانوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ان کی تاریخ میں اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کی طویل داستانیں موجود ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی پہلی بار منائی گئی جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد نے عوام کو شدید دباؤ میں رکھا تھا کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی سےیہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان ایک قوم اور ایک ملت ہیں اور قیام پاکستان میں بنگال کے مسلمانوں کی قربانیاں اور خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
اے کے فضل الحق، خواجہ ناظم الدین ، حسین شہید سہروردی،مولاناعبدالحامد خان اور ایسے دیگر لیڈران تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوچکے ہیں اور آج اگر ان اکابرین کو خراجِ عقیدت پیش نہ کیا جائے تو یہ ان کی اروح کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں قائد اعظم محمد علی جناح کی برسی منانے کے بعد اب موجودہ پاکستان جو ماضی مغربی پاکستان کہلاتا تھا، اسے کیا کرنا چاہئے؟ تو ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھتے اور یہ غور نہیں کرتے کہ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل ملک کے دونوں حصوں میں قائد اعظم کیلئے جو جذبہ موجود تھا، اسے آج بھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے تاکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوسکیں۔
دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ پہلے دو قوموں کے مابین جنگیں اورتنازعات ہوئے اور اس کے بعد جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو دونوں اقوام شیر و شکر ہوگئیں اور مل جل کر ترقی کی راہیں بھی طے کرنے لگیں۔ روانڈا، ایسٹ تیمور، جنوبی افریقہ، کوسووو اور بوسنیا ہرزیگوینا ایسے ہی ممالک ہیں جہاں تنازعات ہوئے اور تنازعات کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اگر ماضی کو بھلا کرآگے بڑھا جائے تو اس میں کوئی ہرج نہیں، جیسا کہ بنگلہ دیشی بھائی کہہ رہے ہیں کہ ماضی کو بھلاؤ اور آگے بڑھنے کی بات کرو۔
قائد اعظم کے نام کی مناسبت سے جو جناح اسپرٹ انہوں نے دکھائی، یہ ہمیں ایک کرنے کی ابتدا ہوسکتی ہے۔ ہمیں بطور مسلمان تاریخی پس منظر کے لحاظ سے بھی بنگلہ دیشی قوم کے ساتھ اپنے تنازعات کو ختم کرنا ہوگا۔
بنگلہ دیش میں ملک گیر ہنگاموں کے بعد جو فضا پیدا ہوئی ہے اس میں وہ جوش و جذبہ اور تاریخ موجود ہے جو بنگلہ دیش اور پاکستان میں موجود قوموں کو ایک دوسرے سے منسلک کرسکتی ہے اور جوڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کیلئے سفارتی سطح پر کاوشیں کرتے ہوئے ویزہ آن ارائیول جیسی سہولیات متعارف کرانا ہوں گی تاکہ باہمی فرق اور تفاوت ختم ہوسکے۔
پاکستان سے بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش سے پاکستان براہِ راست پروازیں شروع کی جاسکتی ہیں اور چین بھی اس کی سپورٹ کرے گا کیونکہ یہ سی پیک کے ائیر کوریڈورکے طور پر سامنے آئے گا۔
ماضی میں بنگالی قوم نے قائدِ اعظم کا ہراول دستہ بن کر تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ دونوں ممالک سفارتی سطح پر ایک دوسرے کیلئے سہولیات کا اعلان کرسکتے ہیں۔ دو طرفہ تعاون اور تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، بھارت اسے سبوتاژ کرنے میں بالکل دیر نہیں لگائے گا اور زیادہ دیر خاموش بھی نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کو سپورٹ کرنے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا دور ختم ہوگیا ہے تو بھارت کے بنگلہ دیش سے ماضی جیسے تعلقات اور حالات اب نہیں رہے، جس کا بھارت کو بہت ملال ہے۔
پاکستان کے بہت سے سابقہ وحاضر سفیر اور ماہرین عالمی امور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مزید فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب آسکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ بنگلہ دیش اور موجودہ پاکستان ایک بار پھر مشرقی اور مغربی پاکستان بننے کی راہ پر گامزن ہوجائیں جس میں دیر ہے اندھیر نہیں ،آئندہ آنے والے 5 سے 10 سالوں میں اگر باہمی تعلقات کو درست نہج پر فروغ دیا جائے تو کچھ بھی ممکن ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں اپنی نئی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کو تعینات کیا ہے جن سے بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو فروغ دینے سمیت دیگر بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔
افغانستان ہمارا برادر ملک ہے جن سے ہمارے مذہبی، ثقافتی اور جذباتی رشتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہت مضبوط ہونے چاہئیں۔ خطے کی صورتحال دیکھتے ہوئے دونوں ممالک کو نہ صرف اپنے مراسم کو برقرار رکھنا پڑے گا بلکہ ان مراسم کو عروج پر پہنچانے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ ایران اور افغانستان جیسے پڑوسی ممالک سے مخاصمت رکھ سکے۔
اسی طرح ایران کے ساتھ بھی ہمارے گہرے اسلامی تاریخی اور ثقافتی رشتے ہیں، اس کے ساتھ بھی تعلقات میں مزید دوطرفہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
حسینہ واجد کے دور میں ایسی باتیں کی جاتیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہے اور قربتوں میں اضافہ کرنا ہے تو ایسے لوگوں کو لٹکا دیا جاتا اور پھانسی کی سزائیں دی جاتیں، لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے اور اب دونوں طرف عقیدت، محبت اور بھائی چارے کے جذبات پنپ رہے ہیں۔
بھارت سمیت دیگر طاقتیں نہیں چاہتیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان ساتھ مل کر ایک اور طاقت بن جائیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں باصلاحیت افراد اور ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ ایک طرف بنگلہ دیش کہہ رہا ہے کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا تو دوسری جانب ہم یہ کہتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے جن بنگالی رہنماؤں کا ذکر اوپر آیا ہے، اگر وہ نہ ہوتے تو خاکم بدہن آج پاکستان بھی نہ ہوتا۔
ہم اے کے فضل الحق، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدلحامد سمیت بنگالی لیڈروں کی جتنی تعریف کریں اور ان کیلئے جتنی دعائیں مانگیں، وہ کم ہیں۔ یہ سب لوگ جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھے جن کی نسلیں آج ہمیں کہہ رہی ہیں کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا اور ہم اسی جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ دونوں طرف کی کدورتیں ، دوریاں اور فاصلے اب کم ہونے چاہئیں۔
جدوجہدِ آزادی کے دوران قائد اعظم نے جب بھی بات کی مسلم امہ کی بات کی، مسلمان قوم کی بات کی اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دینے کا حکم دیا۔ قائداعظم نے کشمیر و فلسطین کی بھی بات کی اور جہاں جہاں مسلمان تکلیف میں تھے، آپ نے ان کی جدوجہد کیلئے اپنی پوری حمایت کا یقین دلایا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے مابین باہمی جذبات برادرانہ اور مسلم بھائی چارے پر مبنی ہیں۔ باہمی جذبات کو فروغ دینے کا عمل از خود بڑھتا اور پنپتا ہے۔ جب باہمی جذبات کو فروغ دینے کی بات گھر سے نکل کر کالج، یونیورسٹی اور دفاتر تک پہنچے اور جب ایسا ہوگا تو دونوں ممالک کے مابین رنجش یا کدورت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
دوسری جانب بھارت کی پوری کوشش ہے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے الگ تھلگ ہی رہے اور یہ دونوں برادر ممالک کہیں باہم شیر و شکر نہ ہوجائیں۔ لیکن ملک گیر مظاہروں کے بعد جو نوجوان نسل بنگلہ دیش میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے ، اس نے دہائیوں سے جاری انڈیا کی سائیکو وار فیئر کے اختتام کا اعلان کردیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں ہم ماضی کی غلطیاں بھلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
چین بنگلہ دیش میں بھی کافی سرمایہ کاری کررہا ہے اور بی آر آئی منصوبے کے ترقیاتی جال بچھا رہا ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی جذباتی اعتبار سے بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ بھارت اپنی فضائی حدوداستعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، مگر پاکستان بنگلہ دیش کیلئے بی آر آئی ائیرکوریڈور کی مدد سے مختلف روٹس پر براہِ پروازیں شروع کرسکتا ہے۔
ہمارے اور بنگلہ دیش کے مابین دونوں ہی طرف کچھ کچھ تلخ یادیں ہیں جنہیں آسانی سے بھلایا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں قائد اعظم کی برسی منا کر جس جذبے کا اظہار کیا گیا ہے، وہ صرف ایک برسی نہیں بلکہ وہ جوش و جذبہ اور نظریہ ہے جس نے انیسویں صدی کی ابتدا میں ہی آنکھ کھولی تھی اور پھر نسل در نسل یہ جذبہ آگے بڑھتا اور پھلتا پھولتا چلا گیا۔
پاکستان کو چاہئے کہ اس ابھرتے برادرانہ جذبے سے مستفید ہو تاکہ پاکستان اور بنگلادیش کے تاریخی اور روایتی روابط دوبارہ قائم ہوجائیں بلکہ جیوپولیٹکل منظر نامے پر بھی دونوں ملک نمایاں کردار ادا کرسکیں۔