بابری مسجد شہادت کیس میں تمام ملزمان کی بریت کا ظالمانہ فیصلہ اور عالمی ضمیر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بابری مسجد شہادت کیس میں تمام ملزمان کی بریت کا ظالمانہ فیصلہ اور عالمی ضمیر
بابری مسجد شہادت کیس میں تمام ملزمان کی بریت کا ظالمانہ فیصلہ اور عالمی ضمیر

گزشتہ روز ہمسایہ ملک بھارت میں تاریخِ انسانی نے ایک اور سیاہ ترین دن دیکھا جب ایک عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس میں تمام ملزمان کو بری کرنے کا ظالمانہ فیصلہ سنایا جس پر عالمی برادری ہمیشہ کی طرح خاموش ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت میں اِس فیصلے کے خلاف صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں نے بھی آواز اٹھائی۔ آئیے، سب سے پہلے اِس فیصلے کی تفصیلات دیکھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ صرف اسلام کے نام لیوا ہونے کی وجہ سے مذہبی بنیادوں پر کس طرح کا ظلم و ستم روا رکھا جارہا ہے۔

بابری مسجد کیس میں تمام ملزمان کی بریت

بھارتی شہر لکھنؤ میں عدالت نے بابری مسجد کو شہید کرنے والے تمام کے تمام 32 ملزمان کو رہا کردیا جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر مرکزی رہنما و سابق بھارتی نائب وزیرِ اعظم ایل کے ایڈوانی اور دیگر اہم نام شامل ہیں۔

فیصلے کا ایک اور تاریک پہلو یہ ہے کہ واقعے کے 28 برس بعد یہ فیصلہ سامنے آیا جو ظلم کی ایک نئی داستان رقم کرنے کے مترادف ہے۔ ملزمان میں سابق مرکزی وزیر منوہر جوزی، اوما بھارتی اور یو پی کے سابق وزیرِ اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت دیگر سیاستدان بھی شامل ہیں۔

ایس کے یادیو نامی جج نے فیصلے کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کو کسی باقاعدہ منصوبہ بندی سے نہیں گرایا گیا، ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت دستیاب نہیں، اِس لیے عدالت تمام ملزمان کو بری کرتی ہے۔

پاکستان کا ردِ عمل

جب یہ فیصلہ سامنے آیا تو پاکستان نے ملزمان کی بریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ شرمناک ہے جس سے دُنیا بھر کے مسلمانوں کی دلآزاری ہوئی جن میں خود بھارتی شہری بھی شامل ہیں۔

نریندر مودی حکومت کو نام نہاد جمہوریت قرار دیتے ہوئے ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت پر فخر کرنے والوں کو آزاد کیا گیا، یہ انصاف کا قتل ہے۔ ہندو نواز بھارتی حکومت نے پلاننگ کے تحت رتھ یاترا کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ 28 سال بعد فیصلہ سنایا گیا جس میں 850 گواہ موجود تھے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ 850 گواہوں، 49 ملزمان،  7000 دستاویزات، 100 رپورٹس، تصاویر اور مسجد کی شہادت کی ویڈیو ریکارڈنگز کے باوجود کوئی سزا نہیں دی گئی۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ 

بھارتی مسلمانوں کا ردِ عمل 

جمعیت علمائے مہاراشٹر نے بھارت میں بابری مسجد کیس کے فیصلے پر انتہائی سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے تمام ملزمان کو بری کردیا۔ بھارت میں اقلیتوں کو آج کے بعد انصاف نہیں ملے گا۔ 

سیکریٹری جمعیت علمائے مہاراشٹر گلزار اعظمی نے کہا کہ گواہوں اور ثبوتوں کی موجودگی میں عدالت نے کہا کہ کوئی ثبوت نہیں ہے، آج بھارت کی قومی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آج کے بعد اقلیتیں انصاف سے محروم رہیں گی۔ 

مسجد کی شہادت کا پس منظر

بھارتی ریاست یو پی (اتر پردیش) کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے جو آج سے 28 سال قبل ہوا۔ بابری مسجد 16ویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی جسے ہندوؤں کے شدت پسند گروہ نے شہید کردیا۔

واضح رہے کہ ہندوؤں کی مذہبی داستانوں میں ایودھیا شہر کو رام کی جنم بھومی مانا جاتا ہے یعنی یہاں ہندوؤں کے خدا رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ سن 1980ء میں ہی وشوا ہندو پریشد نامی تنظیم نے بابری مسجد کے خلاف مہم چلائی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تحت چلنے والی مہم کا اہم مقصد تھا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے۔ مہم کے تحت متعدد ریلیوں اور جلسوں میں ایل کے ایڈوانی نے بڑھ چڑھ کر بابری مسجد کی شہادت کی حمایت اور رام مندر کی تعمیر کا مذموم ارادہ ظاہر کیا۔

بی جے پی نے ڈیڑھ لاکھ رضا کار جمع کیے جو بظاہر ایک ریلی کیلئے جا رہے تھے لیکن یہ ریلی حفاظتی حصار توڑ کر مسجد میں گھس گئی اور بابری مسجد کو شہید کیا۔ تفتیش سے بے شمار نام سامنے آئے جنہیں بابری مسجد انہدام کیس میں نامزد کیا گیا۔

حکمراں سیاسی جماعت بھارتی مسجد نے نہ صرف بابری مسجد کو شہید کیا بلکہ ہندو مسلم فسادات بھی کروائے جن میں کم سے کم 2 ہزار انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور گزشتہ روز کے بھارتی عدالت کے فیصلے کے بعد بھارت میں فضا دوبارہ کشیدہ نظر آتی ہے۔ 

مشتعل ہجوم یا سوچی سمجھی سازش

سن 2014ء میں کوبرا پوسٹ کے ایک اسٹنگ آپریشن میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ بابری مسجد کو کسی مشتعل ہجوم نے شہید نہیں کیا بلکہ یہ سارا کام ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا جس کا سرکاری اداروں کو کوئی علم نہیں ہوا۔

دعوے کے تحت یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ایک ایسی سوچی سمجھی سازش تھی جس کیلئے وشوا ہندو پریشد اور شیو سینا دونوں کئی ماہ پہلے سے کر رہے تھے۔ 

عالمی برادری کا ردِ عمل 

یہ کوئی ڈھپی چھپی بات نہیں ہی کہ نریندر مودی حکومت ہی بابری مسجد کے انہدام اور جانبدارانہ و ظالمانہ عدالتی فیصلوں کے پیچھے ہے جو عدالتوں کو ظلم پر مجبور کرتی ہے۔

ہمسایہ ممالک سمیت دیگر کچھ ملکوں کی طرف سے بھی وقتاً فوقتاً بابری مسجد کیس کے حوالے سے مختلف خبروں پر نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔

عالمی برادری کا کہنا ہےکہ بھارتی حکومت نہ بابری مسجد کی شہادت رُکوا سکی، نہ مسلم ہندو فسادات اور نہ ہی ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر کوئی کارروائی کی جاسکی۔ 

ایسے واقعات پر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

ہمسایہ ملک بھارت میں تاریخی مسجد اور مسلمانوں کی شہادتیں کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے آسانی سے بھلایا جاسکے۔ ہر مسلمان کا دل ایسے واقعات پر خون کے آنسو روتا ہے اور مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک یا ظالمانہ عدالتی فیصلے اسلاموفوبیا کی عالمی سازش کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔

اسلاموفوبیا سے مراد یہ ہے کہ مذہبی منافرت کے نام پر مسلمانوں کو شدت پسندی پر اُکسایا جارہا ہے۔ مسلم دشمن یہ چاہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی حرکت کریں جس پر انہیں تیسری عالمی جنگ چھیڑنے کا موقع مل جائے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے واقعات کے خلاف آپس میں ایک مضبوط رائے عامہ قائم کریں۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہو، اس کے خلاف شدید احتجاج کیا جائے اور تمام مسلمان مل کر اس کی شدید مذمت کریں۔

ایک عام انسان کے طور پر تو اتنا ہی کیا جاسکتا ہے، تاہم حکومتوں کی سطح پر تمام عالمِ اسلام کو ایسی مذموم سازشوں کے خلاف یکجا ہونا ہوگا، تبھی ہم بھارت، اسرائیل اور امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش کا منہ توڑ جواب دے سکیں گے۔ 

Related Posts