سیاست میں مداخلت سے گریز

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ پاک فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، نہ ہی کرے گی اور انہوں نے سوشل میڈیا پر شہداء اور پاک فوج کے خلاف مہم کی سختی سے مذمت بھی کی۔

ہفتے کے روز اپنے ٹوئٹر پیغام میں صدرِ مملکت نے شہداء کے جنازے میں شرکت نہ کرنے پر سوشل میڈیا مہم کی مذمت کی، اسلام کی روشنی میں شہداء کے مقام پر روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ وہ شہداء کا بے حد احترام کرتے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ایک خبر کے مطابق پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار نے سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم چلانے کا اعتراف اور اپنی مہم جوئی پر معذرت کی جبکہ مذکورہ عہدیدار کے والد کی جانب سے بھی پاک فوج کے حق میں بیان جاری کیا گیا۔

اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ملک پر ایک طویل عرصے تک فوج کی حکمرانی رہی جس سے جمہوریت کے نعرے بلند کرنے والوں کے ارادوں پر ضرب پڑی اور انہوں نے مختلف ادوار میں فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم آج کا معاملہ ماضی کے بالکل برعکس ہے۔

آج کل صورتحال یہ ہے کہ پاک فوج واضح طور پر بیان جاری کرتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے آرمی چیف سمیت دیگر عہدیداران کو درخواستیں کی جاتی ہیں کہ براہِ کرم سیاست میں تھوڑی سی مداخلت ضرور کریں ورنہ سیاستدان بے لگام ہوجائیں گے، تاہم پاک فوج ماضی کی روایات سے بہت کچھ سیکھ چکی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ پاک فوج سیاست میں مداخلت سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عمران خان آرمی چیف کی تقرری پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں؟ اپنے حالیہ بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے سب سے بہتر آفیسر کو آرمی چیف ہونا چاہئے۔ تو کیا انہیں موجودہ آرمی چیف کی تقرری پر تحفظات ہیں؟ 

بلاشبہ آرمی چیف ایک ایسا عہدہ ہے جس کی تقرری پر ہمیشہ سے ہی پاکستانی سیاستدان اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں۔ پاک فوج نے ہر دور میں حکومت کا ساتھ دیا کیونکہ بطور ایک قومی ادارے کے، پاک فوج کا فرض حکومت کی کارکردگی میں اس کا ساتھ دینا تھا، نہ کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت پر تنقید کرنا، جو اس نے بخوبی نبھایا۔

تاہم پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں پاک فوج پر تنقید کرتی نظر آئیں اور اب تحریکِ انصاف اس راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاک فوج نے تو سیاست میں حصہ لینا بند کردیا، سیاسی جماعتیں اپنے مسائل خود سلجھانے کی بجائے پاک فوج کو ان معاملات میں گھسیٹنا کب بند کریں گی؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاستدان اپنے مسائل کا حل اپنے ہی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے تلاش کریں۔ عدلیہ اور پاک فوج کو ان معاملات میں نہ ہی گھسیٹا جائے تو بہتر ہوگا۔ 

Related Posts