آڈیو لیکس اور قومی سلامتی کے تقاضے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آڈیو لیکس کی خبر سامنے آنے کے بعد قومی سلامتی کے معاملات پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس معاملے پر جو بیان جاری کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے پتہ چلے گا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی بریچ ہوئی ہے یا نہیں۔ بغیر کوئی تحقیقات کیے آڈیو لیکس کے معاملے کو سنجیدہ نہ بنائیں۔ اگر ثابت ہوا کہ ریکارڈنگ ڈیوائس رکھی گئی ہے تو معاملہ سنجیدہ ہوگا۔

دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے معاملے کا نوٹس بھی لیا اور تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے جبکہ آڈیوریکارڈنگ سوشل میڈیا پر سامنے آنے سے وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے کیونکہ جو آڈیو ریکارڈنگز سامنے آئی ہیں ان میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آڈیو ریکارڈنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز جبکہ دیگر میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت دیگر رہنماؤں کی آوازیں شناخت کی جاسکتی ہیں۔

سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھی آڈیو لیکس کے معاملے پر اچھی خاصی گفت و شنید کی اور ان کے بیانات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر اعظم میں ہونے والے مختلف اہم اجلاسوں کی آڈیو ریکارڈنگز ہیکرز کی جانب سے ڈارک ویب پر نیلامی کیلئے ڈالی گئی ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ جو ریکارڈنگز منظرِ عام پر آئیں، وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اصل ریکارڈنگز تو فی الحال مخفی رکھی جارہی ہیں جو کسی بھی وقت لیک ہوسکتی ہیں۔

دراصل دنیا بھر میں وزیر اعظم، صدرِ مملکت، وفاقی وزراء اور دیگر اہم حکومتی عہدیدار جو مختلف امور کے متعلق وزیر اعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، پارلیمنٹ ہاؤس یا کسی اور سرکاری عمارت میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں، اسے محفوظ بنانے کیلئے سکیورٹی اداروں کو کئی طرح کے اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔

خفیہ ایجنسیز اور سرکاری اداروں کی جانب سے ایسے اقدامات کا مقصد حساس معاملات کے حوالے سے کی جانے والی بات چیت کو ایک خاص حلقے تک محدود رکھنا ہوتا ہے اور عوام تک وہی باتیں پہنچائی جاتی ہیں جو اتفاقِ رائے اور فیصلوں کی منزل تک جا پہنچتی ہیں جبکہ یہ معاملہ کسی بھی ملک کیلئے بے حد حساس ہوسکتا ہے۔

صدرِ مملکت، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء سمیت اعلیٰ عہدیداران کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ ان کی گفتگو ریکارڈ کی جاسکتی ہے اور کسی ایسی جگہ پہنچ سکتی ہے جہاں اسے نہیں پہنچنا چاہئے تو وہ قومی سلامتی کے امور پر محتاط ہو کر بات کریں گے جبکہ موجودہ دور میں آڈیو لیکس کا معاملہ بے حد حساس ہے۔

ملک کی سیاسی قیادت کو بھی چاہئے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر بے بنیاد بیان بازی کی بجائے وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارات کی سکیورٹی پر اٹھنے والے سوالات کا جائزہ لیں اور سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے تجاویز دیں تاکہ قومی سلامتی کے معاملات پر ہونے والی گفتگو کو ملک دشمن اور مفاد پرست عناصر سے دور رکھا جاسکے۔ 

Related Posts