آفت زدہ معیشت میں فوج کی معاونت۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

یہ قصے کہانیاں تو ہم گزشتہ 3 دہائیوں سے سنتے آرہےہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ون ونڈو سسٹم لایا جائیگا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی 3 اور پیپلزپارٹی کی دو حکومتوں نے دعوے اور نعرے تو بلند کیے لیکن ماضی میں ون ونڈو سسٹم اپنا اصل روپ اختیار نہ کرسکا۔

ہم جس نظام کے تحت اپنے انتظام و انصرام کوچلارہے ہیں اس میں کئی دقیانوسی قواعد وضوابط ایسے ہیں جو کہ برطانوی دور سے اب تک چلے آرہے ہیں ۔ اس حوالے سے راقم الحروف کئی بار اپنی تحاریر، تقاریر اور تجاویز میں اس بات کا احاطہ کرتا رہا کہ جدید دور کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے 19 ویں صدی کے طریقہ کار کو ترک کرکے جدید نظام کے تحت خود کو ڈھالنا ناگزیر ہے جس کے تحت تمام ممالک اپنے نظام کو سہل بناتے جارہے ہیں۔

اس احسن طریقہ کار کو بروئے کار لانے کیلئے یہ امر لازم ہوگا کہ چند قوائد و ضوابط کو ہنگامی طور پر تبدیل کیا جائے تاکہ ون ونڈو سسٹم کامیابی سے ہمکنار ہو اور ایسی کمیٹی بنائے جائے جس کے تحت بیوروکریٹس رولز اور ریگولیشنز میں رعایت برتنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اور کمیٹی میں نیب کے سینئر افسر کے علاوہ وزارت تجارت، وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کے سینئر بیوروکریٹس کو بھی اس کمیٹی کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ قوائد و ضوابط میں بوقت ضرور نرمی کی جاسکے۔

یہ ایک امید افزاء بات سامنےآئی ہے جس کی بناء پر راقم الحروف اپنے تجربے کی بنیاد پر اپنے زمانہ سفارتکاری میں مختلف حکمرانوں سے ہونے والی ملاقاتوں کے پس منظر کے طور پر یہ ضرور کہنا چاہے گا کہ جن شعبوں یا سیکٹرز کا ابتدائی طور پر چناؤ کیا گیا ہے یعنی زراعت، جانوروں کی افزائش و پرورش (لائیو اسٹاک) اور معدنیات، ان تمام شعبہ جات میں پاکستان قدرتی طور پر کافی مالا مال ہے۔

یہاں ہمیں آسٹریلیا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو پوری دنیا میں حلال گوشت ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور مسلمان ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک کو بھی بھجوایا جاتا ہے تاہم اگر پاکستان لائیو اسٹاک میں ترقی کرتا ہے تو یقیناً جو خلیجی ممالک کیلئے ہمیشہ سے اہم ملک رہا ہے ایسے میں خلیجی ممالک پاکستان سے حلال گوشت خریدنا زیادہ پسند کرینگے۔

امارات میں خدمات کی انجام دہی کے دوران چند سلاٹر ہاؤس کی اجازت بھی دلوائی تھی جس سے امارات میں حلال گوشت کی امپورٹ کا آغاز ہوا، اس میں زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں بلکہ صرف درست رہنمائی اور سلاٹرز ہاؤس قائم کرنے اور ان کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

ان شعبہ جات میں پاکستان کے پاس لاتعداد ذرائع بھی ہیں اور ان معاملات میں خلیج کے اہم ممالک مثلاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطرکے علاوہ چین بھی خاص دلچسپی رکھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر خدمات کی انجام دہی کے دوران میرے سامنے امارات کے حکمرانوں نے خود اس حوالے سے دلچسپی ظاہر کی کہ وہ پاکستان کو اپنی فوڈ باسکٹ بنانے کیلئے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے خدشات تھے کہ جب ہمارے سرمایہ کار پاکستان جاتے ہیں تو انہیں 24 محکموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ کئی انتظامی سطحوں پر رشوت ستانی کی ریل پیل کی وجہ سے بیرون ممالک سے آنے والے سرمایہ کاروں کو اس منحوس مذموم طریقہ کار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان وہ ملک ہے جو انہونی کو ہونی میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارا جوہری قوت بننا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ دنیا کے بے شمار ترقی یافتہ ممالک حتیٰ کہ خلیج اور یورپ کے امیر ترین ممالک بھی جوہری قوت بننے کا خواب سینے میں سجائے بیٹھے رہے لیکن ایٹمی طاقت بننے کا خواب پورا نہ کرسکے۔

یہاں یہ بات پوری قوم کے علم میں ہے کہ جوہری قوت بننے کیلئے فوج ہی ہے جو اس پروگرام کو تسلسل، جانفشانی اور انتہائی تندہی وتقدس سے چلاتی رہی۔ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئی لیکن ایٹمی طاقت بننے کیلئے پاک فوج نے یکسوئی سے اس عمل کو برقرار رکھا۔

اگر ہم جوہری طاقت بننے کیلئے ایک نظام وضع کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک نیا ادارہ (اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل)جو قائم کیا گیا ہے وہ پاک فوج کے سپہ سالار کی معاونت سے اپنے اہداف حاصل نہ کرسکے۔

ہر پاکستانی کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہر آفت میں چاہے وہ آندھی ہویا طوفان، برسات ہو یا سیلاب، زلزلہ ہو یا کوئی بھی آفت ، ہر مشکل گھڑی میں افواج پاکستان سینہ سپر ہو کر شہری انتظامیہ کی معاونت کرتی ہیں۔

کیا اس قوم کو یاد نہیں کہ جب ایف اے ٹی ایف کا معاملہ بگڑتا جارہا تھا تب فوج نے معاونت کی اور تمام اداروں کو معاشی اقدامات پر عملدرآمد میں مدد دی جس کے تحت ایف اے ٹی ایف کے اہداف کو پورا کرکے گرے لسٹ سے اخراج ممکن ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔

اگر پاکستان اس وقت معاشی آفت میں گھر چکا ہے تو کیوں نہ اپنے سب سے منظم ادارے یعنی افواج پاکستان کو بحالی کےمنصوبے میں شامل کرکے برق رفتاری کے ساتھ معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کی کوشش کریں کیونکہ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو شاید وقت ہاتھ سے نکل جائیگا اور اسی لئے ہم نے کہا کہ ” ابھی نہیں تو کبھی نہیں”۔

ہمیں علم ہے کہ جمہوریت کے کچھ پیروکار فوج کی معاونت سے شائد زیادہ مطمئن نہ ہوسکیں ہیں تاہم اس جمہوریت کو معروضاتی اور ماحولیاتی حالات کے مطابق چلنا ہے تاکہ اپنے تمام فعال اداروں سے معاونت حاصل کی جاسکے بلکہ اگر ممکن ہو تو فوج کے شعبہ انجینئرنگ کو بڑھاوا دیکر زراعت کے شعبہ کو فروغ دیا جائے جس میں چین بھی پاکستان کی بھرپور معاونت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

اپنے تجربے کی روشنی میں راقم الحروف کو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ” اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کو نسل” کے قیام سے پہلے ہی دوست ممالک نے اس بات کا عندیہ دیا ہوگا کہ اگر پاکستان کوئی ایسا نظام وضع کرے جس سے تسلسل برقرار رہے تو وہ سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں خدمات کے دوران راقم الحروف کو ذاتی طور پر اس بات کا خاص تجربہ ہے کہ امارات گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام کا خواہشمند تھا اور زراعت کے شعبے کو امارات اپنی فوڈ سیکورٹی کیلئے استعمال کرنے کا خواہاں تھا۔

چند تجاویز پر اگر فوری عمل کیا جائے تو امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اگر گھنٹوں میں نہیں تو چند ایام میں ہی ہمارے پاس بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوسکتہ ہے اور اس کے علاوہ بھی اپنے ہی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈالرز آنا شروع ہوسکتے ہیں۔

1۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ڈالرز پاکستان لانے کی صورت میں ضرورت پڑنے پر ضرورت مندوں کو کم سے کم 20 فیصد تک آسان قرض فراہم کیا جائے، برسوں سے دیار غیر میں محنت مشقت کرنے والے پاکستانی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرینگے جس سے پاکستان کو فوری ڈالرز ملنا شروع ہوسکتے ہیں۔

2۔ پاکستان میں بیرون ممالک سے آنے والے ترسیلات زر میں ہنڈی کی وجہ سے شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم حکومت چند اچھے اقدامات سے بیرون ممالک میں مقیم خاص طور پر خلیج میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کرکے ترسیلات زر میں اضافہ ممکن بناسکتی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں بطور سفیر خدمات کے دوران ہم نے 10 ہزار ڈالر تک پاکستان بھیجنے والوں کو تعریفی اسناد سے نوازنے کے علاوہ سفارتخانے میں انہیں خصوصی عزت دینا شروع کی جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور ترسیلات زر میں تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا،اب اسی فارمولے کے تحت دوبارہ ترسیلات زر میں اضافہ ممکن ہے۔

3۔ہمارے ملک میں ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی موجود ہے جس کا مقصد ہی ایکسپورٹ کو فروغ دینا ہے تاہم ان کی کارکردگی ہمیشہ مایوس کن رہی اور یہ اتھارٹی کرایوں کی مد میں چھوٹے تاجروں کا خون چوسنے میں مصروف رہی ہے تاہم اگر بیرون ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں اور سفراء کے گھروں کے احاطوں کو سنگل کنٹری ایگزیبشن کا اہتمام کیا جائے تو ہمارے چھوٹے تاجر بھی بڑے بڑے کنٹینرز یا دیگر ذرائع سے اپنی مصنوعات فروخت کرکے بھاری زرمبادلہ کماسکتے ہیں اور یہ تجربہ بھی راقم الحروف ہی ماضی میں لیبیا میں کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کرچکا ہے اور فوری بھاری تعداد میں ڈالر کا حصول ممکن ہوا۔

ملت پاکستان کے لوگو ں کو تھوڑی سی بھی روشنی کی کرن نظر آئے تو وہ اپنے تن، من دھن کی بازی لگاکر مملکت پاکستان کو اس مصیبت سے نکالنے میں یقیناً معاونت کار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمارے حکمرانوں کو بھی اس مشکل وقت میں کک بیکس اور رشوت ستانی سے اجتناب کرنا ہوگا جو ہماری مشکلات کا ایک بڑا سبب ہے۔

Related Posts