سندھ کی جامعات میں وائس چانسلرز کا تقرر، سرچ کمیٹی کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سندھ کی جامعات میں وائس چانسلرز کا تقرر، سرچ کمیٹی کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ
سندھ کی جامعات میں وائس چانسلرز کا تقرر، سرچ کمیٹی کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ

کراچی: صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین ڈاکٹرعاصم حسین صوبے کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کے تقرر کیلئے قائم ہونے والی سرچ کمیٹی کی من مانیوں کے خلاف بول پڑے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے وزیراعلیٰ سندھ کو لکھے گئے خط میں سرچ کمیٹی کو مزید کام کرنے سے روکنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین نے وزیر اعلیٰ سندھ کو لکھے گئے خط میں لکھا ہے کہ سرچ کمیٹی جن افراد کو وائس چانسلرز تعینات کر رہی ہے ، وہ ایچ ای سی کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے الزام عائد کیا ہے کہ وائس چانسلرز کی تعیناتیوں میں کرپشن کا عنصر شامل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ سرچ کمیٹی کے اراکین  کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور جب تک تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی، موجودہ سرچ کمیٹی کو مذید کام سے روکا جائے۔

ایم ایم نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق چند ماہ قبل ڈاکٹر اختر بلوچ کو شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کا دوسرے ٹینیور کے لیے وائس چانسلر تعینات کردیا گیا ہے۔ مذکورہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے امیدوراوں میں سے 12 کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے باقی تمام امیدوار مکمل طور پر اہل تھے جبکہ ڈاکٹر اختر بلوچ کا انتظامی تجربہ سرچ کمیٹی کی جانب سے شائع شدہ اشتہار کے مطابق 9 ماہ کم تھا۔ جس کے باوجود انہین شارٹ لسٹ کردیا گیا اور نہ صرف شارٹ لسٹ کردیا گیا بلکہ انہیں حتمی 3 رکنی پینل میں بھی شامل کر کے سمری وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کردی گئی تھی۔

سمری میں خصوصی طور پر لکھا گیا تھا کہ ان کا تجربہ 9 ماہ کم ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کے باوجود 11 اہل امیدواروں پر انہیں ترجیح دیتے ہوئے وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ جناح سندھ میڈیکل کالج کے وائس چانسلر کے لیے ڈاکٹر لنبی بیگ کو پہلے اور ڈاکٹر امجد سراج کو دوسرے نمبر رکھا گیا ہے۔ دونوں کے پاس دہری شہریت ہے۔ ان دونوں سے پروفیسر ڈاکٹرعمر فاروق زیادہ موزوں امیدوار تھے۔ مگر مبینہ طور پر ذاتی عناد پر انہیں وائس چانسلر کی فہرست سے باہر کردیا گیا۔

سندھ مدرستہ السلام یونیورسٹی میں ایک من پسند  انجئنئیر وائس چانسر تعینات کردیا گیا ہے۔ سندھ کے دیگر تمام جامعات میں بھی سرچ کمیٹی نے ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر وائس چانسلرز تعینات کر دیئے ہیں۔ سرچ کمیٹی ایک پوسٹ کے لیے 3 ناموں کا انتخاب کر کے وزیراعلیٰ سندھ کو بھیج دیتی ہے اور وزیراعلیٰ ان 3 ناموں میں سے ایک کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی منظوری دے دیتے ہیں۔

عموما وزیراعلیٰ سیریل نمبر ایک کی منظوری دیتے ہیں۔ اس لیے سرچ کمیٹی جس شخص کو وائس چانسلر تعینات کرنا چاہتی ہے ، اسے سیریل نمبر ایک پر رکھتی ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے تعینات ہونے والے وائس چانسلر دوسرے نمبر پر تھے، پہلے ایک نمبر کے امیدوار کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ بعد میں انہیں زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں وائس چانسلر  لگانے کی ضمانت دیکر انہیں مستعفی کرادیا گیا۔

اصولاً نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سرچ کمیٹی کا کام ختم ہوجاتا ہے اور مذکورہ پوسٹ کو دوبارہ مشتہر کرنا چاہیئے تھا مگر ڈاکٹر اختر بلوچ کو مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود وائس چانسلر لگا دیا گیا۔ صوبے کی بیشتر جامعات میں جن افراد کو وائس چانسلرز تعینات کیا گیا ہے۔ان میں سے بعض اہلیت پر پورا نہیں اترتے ہیں تو بعض پر کرپشن کے کیسزز کی تحقیقات  جاری ہیں۔

واضح رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے مگر اٹھارویں ترمیم منظور کرانے والی پیپلز پارٹی تاحال اپنا صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو فعال نہیں کر سکی  ہے۔ جامعات کے وائس چانسلرز کے فیصلے متعلقہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین اور سیکریٹری کے بجائے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کرتا ہے۔ چئیرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن کمیشن غیر فعال اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے لیاری نیورسٹی کے وائس چانسلر اختر بلوچ  نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ  سرچ کمیٹی کی میٹنگ میں پہلے نمبر کے امیدوار نے خواہش ظاہر کی کہ میں ٹنڈو جام کے لئے انٹرسٹڈ ہوں ،۔ جب کی میرا تجربہ کم نہیں ہے،کیوں کہ پہلے بھی وائس چانسلر رہ چکا ہوں ۔سرچ کمیٹی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے تجربہ کو مانتی ہے اور ایسویسی ایٹ پروفیسر کے حساب سے میرا 4 ماہ تجربہ کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں : وزیر تعلیم سندھ کی سربراہی میں سرچ کمیٹی کے تحت پہلی بار 2 ریجنل ڈائریکٹرز کا تقرر

Related Posts