وہ صاحب جن کی حکومت اس سال اپریل میں ختم ہوئی، تقریباً فوراً ہی سڑکوں پر آگئے تھے۔ کبھی ایک شہر تو کبھی دوسرے شہر جلسہ جلسہ کھیلنے لگے۔ اپنی طاقت کا اتنا زعم کہ اعلان داغ دیا اگلے ماہ یعنی مئی کے مہینے میں پی ڈی ایم حکومت کو چلتا کردیا جائے گا۔ اتنی جلدی تو کراچی میں کرائے دار سے مکان خالی نہیں کرایا جاسکتا مگر تکبر کا کیا علاج؟ نتیجہ یہ کہ 25 مئی کو سپریم کورٹ کی مدد کے بغیر خیرآباد پل عبور نہ کر پا رہے تھے۔ سپریم کورٹ کی مدد سے گرانے آئے تھے حکومت، اور گرا کر گئے چند درخت۔ یہ صاحب ہمارے ملک کے وہ اکلوتے اخیر المؤمنین ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ درخت لگانے والے لیڈر ہیں۔ مگر ان کے ریوڑ کے جلائے درخت ساری دنیا نے دیکھے۔
اگر کسی کو یاد ہو تو درخت گرا کر اخیرالمؤمنین اس دعوے کے ساتھ واپس پشاور نکل لئے تھے کہ پانچ دن بعد پھر آؤں گا۔ ہم ہنس دیے کہ جو پہلی بار آکر بھی صرف درخت گرا سکا، وہ پانچ دن بعد کیا گرا لے گا؟ بجٹ کی آمد تھی سو بہانہ آسانی سے مل گیا۔ نیا اعلان یہ داغ دیا گیا کہ بجٹ تک شہباز حکومت کو عام معافی ہے، تاکہ بجٹ منظور ہوجائے، مگر “جولائی میں نہیں چھوڑوں گا!” وقت کہاں رکتا ہے؟ سو مئی کی طرح ایک روز جولائی بھی آپہنچا۔ صرف آ ہی نہ پہنچا بلکہ اخیرالمؤمنین کے بلند بانگ دعوؤں کی طرح بے ثمر گزر بھی گیا۔ یوں پہلی بار یہ ہوا کہ اگست کے لئے کوئی تاریخ ہی نہ دی گئی۔ بس حکمت عملی میں یہ تبدیلی کرلی گئی کہ لمبی کے بجائے بہت لمبی چھوڑنی شروع کردی گئی۔ اتنی لمبی کہ شہباز گل بھی تان ملانے کے چکر میں رندے تلے آگئے۔ کسی چھ سالہ معصوم کی طرح رویا وہ ٹارزن، مگر ذہنی صلاحیتیں اسلام آباد پولیس نے ایسی بے نقاب کیں کہ ٹارزن ہونق بنے جج کے سامنے بقدم خود پائے گئے۔ حالانکہ پچھلی پیشی پر وھیل چیئر پر تھے اور ماسک کے فراق میں دھاڑیں مارتے پائے گئے تھے۔
اس موقع پر بھی اخیر المؤمنین نے بڑی اچھل کود کی، مگر اس اچھل کود میں اپنا ایک پیر توہین عدالت اور دوسرا دہشت گردی ایکٹ کی دفعات میں پھنسا بیٹھے۔ پر فواد چوہدری سے نئی تاریخ بھی دلوادی۔ فرمایا گیا “10 ستمبر سے قبل حکومت فارغ ہوجائے گی۔” فواد شاید یہ بھول گئے تھے ہر تاریخ کی طرح 10 ستمبر کی تاریخ بھی آتی ضرورہے۔ آنے کی چیز تھی، آکے رہی۔ اور جانے کی شئے تھی سو چلی بھی گئی۔ پر جو نہیں گئی وہ پی ڈی ایم حکومت تھی۔