خیبر پختونخوا کے مشال خان سے لے کر سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا تک، پاکستان نے مشتعل ہجوم کے حملوں کے کئی واقعات کا مشاہدہ کیا ہے، حالیہ بربریت کا واقعہ کراچی میں رونما ہوا، جس میں ڈاکوؤں کے شبہ میں ٹیلی کام کمپنی کے دو ملازمین کو مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
جیسا کہ اطلاع دی گئی کہ کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں دو ٹیلی کام کمپنی کے ملازم جنہیں لوگوں نے ’اغوا کرنے والے‘ سمجھا تھا، کو مشتعل ہجوم نے بے رحمی سے مار ڈالا۔
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ماڑی پور میں پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے جاں بحق ملازمین کی لاشوں کو سول اسپتال کراچی منتقل کردیا۔
ایس ایس پی فدا حسین جانوری کے مطابق مچھر کالونی ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ یہاں بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ”جب ٹیلی کام کمپنی کے غریب کارکن اس مقام پر پہنچے تو لوگوں نے انہیں اغوا کار سمجھ کر ان پر حملہ کیا۔”
مشتعل ہجوم کی طرف سے اس طرح کے واقعات پاکستان میں کثرت رونما ہورہے ہیں جوکہ معاشرے اور ریاست کے لیے واقعی تشویشناک بن چکے ہیں۔
اس حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن پھر بھی شہریوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے، جب تک ریاست کوئی مثبت پالیسی نہیں بنائے گی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں قانون نہیں ہے لیکن معاملہ پاکستان میں قانون کے نفاذ کا ہے۔
اپریل 2017 میں مشتعل ہجوم نے یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب اس پر گستاخانہ مواد آن لائن پوسٹ کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔
ایک عیسائی جوڑے کو 2014 میں پنجاب میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور دیگر کئی واقعات کے جھوٹے الزامات کے بعد قتل کر کے پھر بھٹے میں جلا دیا گیا تھا۔
مہذب معاشرے میں انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو اس رجحان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ یہ مزید لاقانونیت کا باعث بنے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کو ایسے واقعات میں بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس رجحان پر قابو پایا جا سکے۔