مرکز الفت و محبت۔۔۔سالانہ نقشبندی اجتماع

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Annual Gathering of Naqshband

جیسے انسانوں کے اپنے اپنے بخت اور نصیب ہوتے ہیں ایسے ہی علاقوں اور شہروں کے بھی اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں۔جھنگ شہر بھی ایسا ہی نصیبوں والا شہر ہے، دفاع صحابہ کی مبارک محنت کا عوامی انداز سے آغاز اسی شہر سے ہوا۔

اس محنت اور صحابہ کرام کی عزت و ناموس کے لئے جانیں نچھاور کرنے والوں کی نسبت سے اس شہر نے شہرت پائی-پھر اس شہر کا نصیب ایک مرتبہ پھر چمکااور اللہ رب العزت کے ایک محبوب بندے نے اس شہر کو اپنی اصلاحی،دینی،دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا-

ویسے لوگ بڑے شہروں میں بڑے مرکز بناتے ہیں۔ دینی کام کرنا ہو یا تعلیمی ادارہ بنانا ہو۔عالمی سطح پر کام کا ارادہ ہو یا ملکی سطح پر محنت کا عزم ہولوگ وفاقی یا صوبائی دارالحکومتوں اور بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں ۔

حضرت اقدس حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے ہی شہر کے ایک ویرانے میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیے تو جس وقت حضرت اس ویرانے میں جلوہ افروز ہوئے اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ کبھی یہاں ایسا عالمی دینی،دعوتی اور اصلاحی مرکز ہوگا۔جھنگ میں خدمت قرآن کریم کے حوالے سے گرانقدرخدمات سرانجام دینے والے قاری علیم الدین منصوری صاحب کے بیٹے برادرم مولاناقاری اشرف منصوری بتا رہے تھے”حضرت جی نے اس وقت جھنگ شہر سے بھی باہر جاکرایسے علاقے میں ڈیرہ ڈالا جہاں کوئی رات تو کیا دن کے وقت بھی جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔۔۔ویرانہ تھا ویرانہ۔

حضرت جی نے وہاں جا کر ایک کٹیا بنائی،اس کا نام بھی بڑا عاجزانہ اور فقیرانہ سا رکھا گیا۔”معہد الفقیر الاسلامی”،اس تواضع اور فقر میں، اس درویشی اور خلوص میں جانے کیا تھاکہ ایک دور افتادہ،پسماندہ اور گمنام جگہ کو اللہ رب العزت نے جہاں بھر کے اہل دل کے لیے مرکز الفت ومحبت بنا دیا۔

جانے کہاں کہاں سے تشنگان علم و عمل کشاں کشاں چلے آتے ہیں،پاکستان بھر کے علاقوں سے ہی نہیں دنیا بھر کے ہر خطے کے مکینوں کے دل اس مرکز الفت و محبت کی طرف کھنچتےہیں۔۔۔ہم بھی برسوں سے اسی کوچہ جاناں کےاسیر ہیں اور کریم پروردگارکی رحمت سے مسلسل حاضری کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

عجیب وغریب حالات سامنے آتے ہیں۔عجیب وغریب کارگزاریاں سننے اور دیکھنے جو ملتی ہیں۔الله الله کیسے کیسے بھٹکے ہوئے آہو تھے معھدالفقیر میں بسنے والے مردخدا نے جانے کیسے ان کا رخ سوئے حرم موڑ دیا۔کیسے کیسے پیاسے اس طرف کو لپکے تھے اور اب اپنے اپنے میخانے سجائے بیٹھے ہیں۔

کیسے کیسے مشائخ اوراہل علم ہستیاں، مقتداء، پیشوا، اصحاب جبہ و دستاراس مرکزالفت و محبت سے وابستہ ہوئے اورامر ہوگئے۔حیرت ہوتی ہے ایسی قبولیت بھی کسی کے حصے میں آتی ہے۔رشک آتا ہے اتنی مقبولیت و محبوبیت بھی کسی کا مقدر ہوتی ہے۔سمجھ نہیں آتی اتنے مختصر وقت میں اتنے ڈھیر سارے کام اور دینی سلسلے کیونکر ممکن ہیں۔

دل میں ٹھنڈ پڑتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی کسی کی نسبت اور برکت سے یوں کایا پلٹتی ہے۔معھد الفقیرالاسلامی ایک خانقاہ ہی نہیں درسگاہ بھی ہے۔ایک درسگاہ ہی نہیں تربیت گاہ بھی ہے۔ مرکز الفت و محبت۔گہوارہ علم و عمل۔ سراپا کیف و سرور۔محورعقیدت والفت۔دنیا بھر سے سے دس ہزار سے زائد طلبہ و طالبات بیک وقت اس درسگاہ سے کسب فیض کر رہے ہیںاور سالکین اورمریدین کی تعداد تو اتنی ہے کہ کسی شمار وقطار میں ہی نہیں۔

حضرت جی کے براہ راست وابستگان کی تو بات ہی نہ کیجیے اس مرکز الفت و محبت سے فیض پانے والے کتنے ہی مشائخ ایسے ہیں کہ ان کے متعلقین کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں ہے جو بالواسطہ اسی مرکز سے وابستہ ہیں۔اس مرکزمیں تو ہر وقت ہی بہار ہوتی ہے۔ہر وقت ہی ایسی کشش ثقل کہ کسی دل والے سے پوچھے کہ دل کیسے ادھر کو کھچتے ہیں لیکن اجتماع کے دنوں کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

پاکستان بھر سے جماعتیں اور قافلے قطار اندر قطار کھنچےچلے آتے ہیں۔دنیا کے دیگر ممالک سے وفود حاضر ہوتے ہیں۔ہر طرف اجلے لباس۔سفید عمامے۔دمکتے ہوئے چہرے۔علماء طلبہ الغرض ہر طبقہ فکر۔ہر شعبہ۔ہرپیشہ۔ہر علاقہ۔مسجد کا ہال۔ صحن۔ راہداریاں۔گیلریاں۔دوسری منزل۔الغرض پوری مسجد کھچا کھچ بھری ہوتی ہے۔

معہدالفقیر کے وسیع و عریض چمنستانوں میں انسانوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔جامعہ کی زیر تعمیر عمارت کے ہال اور کمرے ہی نہیں گزرگاہوں پر بھی مسافروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوتے ہیں۔۔۔۔تین روزہ اجتماع میں ساقی آتے ہیں اور جام بھر بھر کر سیراب کرتے چلے جاتے ہیں۔

حضرت جی کے مواعظ۔۔۔۔آپ کا وجود۔۔۔۔ آپ کا انداز تعلیم و تربیت۔۔۔۔ اور آپ کی متبع سنت شخصیت سے سب ہی آنے والے فیض پاتے ہیں۔۔۔۔ حضرت جی دونوں صاحبزادگان حضرت مولانا حبیب اللہ احمد صاحب اور حضرت مولانا سیف اللہ احمد صاحب بلکہ پورا گھرانہ ہی “ایں خانہ ہمہ آفتاب است” کا مصداق ہے۔

حضرت جی کے ہاتھوں کا تراشا ہوا ایک ہیرا شیخ الحدیث حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب ہی ایک ایسی مثال ہین جنہیں دیکھ کر اس ادارے کے فیض وبرکات اور انداز تعلیم و تربیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حضرت جی کے خلفاء ملک بھر سے بلکہ دنیا بھر سے تشریف لاتے ہیں۔ایک سے ایک بڑی ہستی۔۔۔۔ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ۔۔۔۔اپنی اپنی شان۔۔۔۔اوراپنی اپنی پہچان ہے۔۔۔۔جو کوئی بھی منبر پر جلوہ افروز ہوتا ہے وہ موتی اورہیرے وجواہرات بکھیرتا ہے کہ سبحان اللہ۔۔۔ ویسے تو ہر سال ہی اہم شخصیات تشریف لاتی ہیں لیکن اب کی بار کا اجتماع تو ایک کہکشاں تھاکہکشاں۔۔۔۔ست رنگی دھنک— حضرت مولانا فضل الرحمن تشریف لائے اور اپنے خوبصورت انداز سے کیا شاندار گفتگو فرمائی۔

حضرت مولانامحمد احمد لدھیانوی صاحب،حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب،حضرت مولاناسیدکفیل شاہ جی،ناظم وفاق سندھ مولانا امداد اللہ صاحب ناظم تعلیمات جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور دیگر مقررین نے کیا خوب گفتگو کی۔۔۔۔اس عاجز سمیت حضرت جی کے کئی خدام کو بھی حضرت جی کے سائے میں بات کرنے کا اذان ملا۔معروف ثنا خواں حافظ ابوبکر، حافظ عبد الباسط حسانی اور اسامہ اجمل قاسمی سمیت بہت سے نعت خوانوں نے اپنی اپنی آواز کا جادو جگایا۔

ہر نشست کے آخر میں دعاؤں اور مناجات اور ذکرواذکار کی محافل میں عجیب کیفیات ہوتی ہیں۔۔۔۔ایسی کیفیات جنہیں نہ لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔کتنے ہی لوگوں کو دیکھ رہے ہیں اجتماع میں تشریف لاتے ہیں اور زندگی کا رخ ہی بدل کر رہ جاتا ہے۔

اجتماع میں آنے والوں کے لئے ایسے انتظامات۔۔۔۔ خدمت کی ایسی ترتیب۔۔۔۔۔ایسا مثالی نظم و ضبط۔۔۔۔ خدام کا ایسا خلوص۔۔۔۔ہر سہولت و ضرورت کی ایسی فراوانی کہ ماشاء الله، ویسے تو ہمارے حضرت جی جہاں تشریف لے جاتے ہیں وہیں اجتماع ہوتا ہے۔۔۔۔ وہیں بہار آجاتی ہے۔۔۔۔اور یہ تو پھر حضرت جی کا مرکز اور مسکن ہے خود سوچۓ کہ یہاں کیا عالم ہوگا۔۔۔۔ کبھی ضرور جھنگ تشریف لے جائیے۔

اجتماع میں نہیں جا سکے تو عام دنوں میں تشریف لے جائیے۔۔۔۔ماہ رمضان کا کچھ حصہ معہدالفقیر میں گزاریے۔۔۔زندگی کی بھاگ دوڑ میں سے کچھ فرصت کے لمحات نکال کر اس مرکز میں کچھ دن ضرور گزاریے۔۔۔۔ پھر دیکھیے کیا ملتا ہے؟۔۔۔۔۔زندگی کیسے بدلتی ہے؟۔نصیب کیسے جاگتے ہیں؟۔۔۔۔ دل میں شمعیں کتنی فروزاں ہوتی ہیں؟۔۔الله کریم کی محبت کی حلاوت کیسے محسوس ہوتی ہے؟ یہ راستہ یہ شعبہ اور یہ کام کہنے اور لکھنے کا نہیں کرنے اور چکھنے کا ہے اللہ رب العزت سب کو توفیق عطا فرمائیں۔آمین

Related Posts