ہم اس گزرے اکتوبر میں گلگت بلتستان کی سیر کو گئے، روانہ ہوتے وقت پروگرام یہ تھا کہ اس بار سکردو سائیڈ پر جائیں گے کیونکہ گلگت سے ہنزہ اور ہنزہ سے خنجراب تک کا علاقہ ہم 2017ء میں گھوم آئے تھے۔ مگر جب سفر شروع ہوا تو رادہ بدل گیا۔
فیصلہ ہوا کہ پچھلی بار جو علاقے موسم گرما میں دیکھے تھے وہی اب عین جاڑے کی آمد پر دیکھے جائیں۔ مہینہ اکتوبر کا تھا مگر گلگت شہر میں دن گرم تھا۔ سو پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہم نے قیام ہنزہ میں اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جو سرد مقام ہے۔ ہنزہ کے گرد سر اٹھائے بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر تازہ برف اس بات کا اعلان تھا کہ برفباری کا سیزن شروع ہوچکا۔
مقامی لوگوں سے یہ نوید بھی مل گئی تھی کہ اب ہم جتنا خنجراب کے قریب تر ہوتے جائیں گے برف اتنی ہی نیچے ملتی چلی جائے گی۔ سو جب خنجراب کی طرف روانہ ہوئے ان کی بات درست ثابت ہوتی گئی۔ خنجراب بارڈر سے قبل کے آخری دس کلومیٹر ایسے تھے کہ سڑک برف کی ہلکی تہ تلے آچکی تھی۔ یوں جب خنجراب بارڈر پہنچے تو اس کا وسیع میدانی حصہ پوری طرح برف میں ڈھک چکا تھا۔اور اس میں درجنوں یاک اپنی خوراک تلاش رہے تھے۔
پچھلے سفر کی یادگار ہنزہ میں مقامی دانشور عافیت نذیر صاحب سے ہونے والی اتفاقیہ ملاقات تھی۔ وہ اسماعیلی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ سو ہم نے اس نشست میں زبان کا استعمال صرف سوالات تک رکھا اور زیادہ انہی کو بولنے دیا تاکہ کچھ سیکھ سکیں۔ ہم نے ان سے اسماعیلی برادری کی مذہبی رسومات، ان کی تاریخ، کلچر، اور خود ہنزہ تک ان کے پہنچنے کی تفصیل جتنی ممکن تھی معلوم کی۔ اور بلاشبہ ہماری معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوا تھا۔
طویل نشست اس بار بھی میسر آئی مگر ہنزہ میں نہیں چلاس میں۔ ہماری شامت کہ شرکاء ہم عقیدہ و ہم فکر ہی نہیں بلکہ ہمارے فیس باک فالوؤرز تھے۔ اس کا “ناجائزفائدہ” اٹھا کر سوالات کی صورت زبان کے کمتر استعمال کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال لی تھی۔ اور جوابات کی صورت مسلسل بولنا ہمارے حصے میں آگیا تھا۔ ہم ان کے علم میں کوئی اضافہ کرپائے یا نہیں، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ ہم ان سے ان کے کلچر اور تاریخ سے متعلق کچھ نہ جان پائے۔ وہ تو کچھ بتانے کی نیت سے آئے ہی نہ تھے۔
شرکاء بلکہ چلاس میں ہمارے ان میزبانوں میں سرفہرست مولانا سیف الرحمن صاحب تھے۔ وہ جید عالم دین بھی ہیں اور ماڈرن علوم میں معاشیات پر بھی ان کی گرفت ہے۔دیگر میزبانوں میں چلاس کے سینئر صحافی فخرعالم قریشی، محکمہ جنگلات کے ڈپٹی ڈاریکٹر جاوید صاحب، نوجوان بزنس مین محمد وقاص اور جناب اصیل خان شامل تھے۔ یہ دل و دماغ پر نقش ہوجانے والی ملاقات ثابت ہوئی۔ وجہ اس کی یہ رہی کہ ہم نے پہلی بار ایسے لوگ دیکھے جن کا ہم سے دہرا تہرا کر کلیدی سوال یہ تھا
“ہم اپنے ملک کے لئے کیا کرسکتے ہیں ؟ اس کے حالات میں بہتری لانے کے سلسلے میں ہمارا کردار کیا بنتا ہے ؟”
یہ سوال پوچھتے ہوئے ان سب کے چہروں پر جو گہری پریشانی تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اور یہ ان کی اس گہری فکرمندی کا ہی نتیجہ تھا کہ ہماری نشست تھی مگر ہمارا قہقہہ غائب تھا۔ ان کے سوال کی معنویت فقط یہ نہ تھی کہ وہ اپنے ملک کے لئے کچھ اچھا کرنے کو بے چین تھے۔ بلکہ اس کی خاص بات یہ تھی کہ پہاڑوں کے بیٹے یہ سوال اسی پاکستان میں پوچھ رہے تھے جس پاکستان کے بڑے شہروں کا بیٹا ہم سے سالہا سال سے یہ سوال پوچھ رہا ہے
“اس ملک نے مجھے کیا دیا ؟ کیا مجھے یہ ملک چھوڑ نہیں دینا چاہئے ؟”
سوالات کا یہ فرق ہی واضح کرنے کو کافی ہے کہ ہمارا شہری نوجوان خود غرضی کی عینک لگائے بیٹھا ہے۔ ورنہ اس ملک نے پہاڑوں کے ان بیٹوں کو جو کچھ دیا ہے وہ بلاشبہ اس سے بہت کم ہوگا جو اس نے شہری بیٹوں کو عطاء کیا ہے۔ لیکن سوچ میں زمین و آسمان کا یہ فرق دیکھئے کہ پہاروں کا بیٹا اس فکر میں مبتلا ہے کہ اس ملک نے مجھے جو دینا تھا، دیدیا۔
اب مجھے یہ بتایا جائے کہ میں اسے کیا دوں اور اس کے لئے کیا کروں ؟ ہمارے شہری لونڈوں کو اپنے انداز فکر پر غور اور سوالات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ قوموں کا مستقبل اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ نہیں بلکہ قوم کا طرز فکر طے کرتا ہے۔
اگر سوال منفی بلکہ ہڈحرامی پر مبنی یہ ہو کہ اس ملک نے مجھے کیا دیا ؟ تو اس سے یہ تو طے ہوگیا کہ پوچھنے والے ہڈحرام کے پاس ملک کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ یہ اب بھی بس مانگنے کی فکر میں مبتلا ہے۔ اور اگر سوال مثبت ہی نہیں بلکہ اس حد تک بے لوثی پر مشتمل ہو کہ گویا یہ کہا جا رہا ہو کہ ہمیں وطن سے مزید کچھ نہیں چاہئے۔ اب ہماری دینے کی باری ہماری ہے۔ ہمیں تو یہ بتایا جائے کہ ہم وطن کو کیا دیں ؟ اور اس کے لئے کیا کریں ؟تو اس سوال سے یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس ملک کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔
سوال بے پناہ اہم تھا سو جواب رسمی دینا ظلم ہوتا۔ رسمی جواب تو یہی ہوتا کہ بھئی ووٹ سوچ سمجھ کر دیا کرو، فلاں پارٹی سے بچ کر رہو، فلاں پارٹی کو سپورٹ کرو، رشوت، کرپشن اور اقربا پروری سے بچ کر رہو وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے یہ راہ اختیار نہ کی۔
ہم نے عرض کیا۔ ملک کے لئے فعال کردار ادا کرنے کے لئے لازم ہے کہ اجتماعی نظم کا علم اور شعور میسر ہو۔ انسان چونکہ ایک سماجی جاندار ہے، سو اپنی جبلت کے تحت ہم ایک ہجوم کی صورت موجود تو ہیں مگر کوئی منظم سماج نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم نے سماجیات کا علم ہی حاصل نہیں کیا، سو ہمارے پاس سرے سے کوئی باقاعدہ سماجی شعور ہی نہیں۔
اپنے بچوں کے لئے ہماری کل سوچ یہ ہوتی ہے کہ انہیں فلاں سبجیکٹ کی تعلیم دلوانی ہے۔ کیونکہ آج کل اس کی تنخواہ زیادہ ہے۔ اچھی تنخواہ والی نوکری ہماری پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ سو کسی اجتماعی سوچ اور ہدف کے لئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔
اس صورتحال کو بدلنا ہوگا۔ اجتماعی سوچ کو باقاعدہ ایجنڈہ بنائیں گے تو تب جا کر کہیں کوئی منظم سماج وجود میں آئے گا۔ ایک بہتر سماج ہوتا کیا ہے ؟، اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں ؟ اسے نقصان کس کس چیز سے پہنچتا ہے ؟ وہ مستحکم کن چیزوں سے ہوتا ہے ؟ اس میں فرد کا کردار کیا ہے ؟ یہ سب آپ کو فکشن سے سمجھ آئے گا۔
مگر کونسا فکشن ؟ مغربی فکشن ؟ قطعا نہیں۔ مغربی فکشن کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ تصور نہیں دیتا بلکہ بنے بنائے تصور کو پرکشش بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور وہاں بنابنایا تصور یہ رہا کہ فرد اپنی مرضی کا مالک ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ماں باپ پر تین حرف بھیجے اور اپنی راہ لے۔ خاندان پہلی سماجی اکائی ہے۔ جب وہی توڑ دی گئی تو آئیڈیل سماج خاک وجود میں آتا ؟ چنانچہ ان کی ابتری اب اندھے کو بھی نظر آرہی ہے۔
ہمارا اپنا فکشن بھی کسی کام کا نہیں۔ کیونکہ یہاں کے فکشن پر اجارہ داری ہی ان کی ہے جو سرے سے یہی شعور نہیں رکھتے کہ ہر قوم کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے جو اس کے کلچر سے ہوتی ہے۔
اپنا کلچر سرنڈر کرنے والے اپنی شناخت کھو دیتے ہیں۔ کیا مغرب کی ترقی یافتہ اقوام میں ایک بھی ایسی قوم ہے جو اپنا کلچر یا زبان تک سرنڈر کرنے کو تیار ہو ؟۔ ہمارے نام نہاد “بڑے ادیب” ہمیں 75 سال سے یہ چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی شناخت سرنڈر کرنا ترقی کے دروازے کھول دے گا۔
یہی تو المیہ ہے کہ ہر قوم کا ادیب اپنی قوم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ مگر ہمارا مین سٹریم ادیب ہمارا نہیں مغرب کا نمائندہ ہے۔ یہ لوگ ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ وغیرہ پر طنز کیوں کستے ہیں ؟ کیونکہ وہ اپنے کلچر کے نمائندے تھے، لنڈے کا مال نہیں بیچتے تھے۔وہ تو محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی پتھر بہت بھاری ہیں سو کمر میں چک پڑنے کے خوف سے یہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ورنہ بس چلے تو انہیں بھی کچا چبا جائیں۔
پھر ایک مستقل المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادیبوں میں جو مشرق کے نمائندے تھے، ان کا کام جامعیت نہیں رکھتا۔ کسی ایک یا سب کے مجموعی کام کے مطالعے سے آپ مشرقی سماجیات کے احاطے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کا زور کہانی بننے پر تھا، اس سے کوئی بڑا نتیجہ وہ برآمد نہ کرسکے۔ کوئی تصور نہ دے سکے۔
اس کے برخلاف آپ پورے رشین لٹریچر کو بھی چھوڑیئے، صرف فیودور دوئیسکی اور لیو ٹالسٹائی کا کام دیکھ لیجئے۔ اگر باقی سارے کا سارا رشین لٹریچر جلا بھی دیا جائے تو ان دونوں کا کام رشین سماجیات کی تمام کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔
تصور خدا، تصور انسان اور تصور علم۔ ان تین چیزوں کا احاطہ سماج کی تمام کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ دوستوئیسکی اور ٹالسٹائی نے ان تینوں کا احاطہ کرکے دکھایا ہے۔
خدا پر دوستوئیسکی کا تصور اتنا ٹھوس رہا کہ نطشے کو یہ کہنا پڑا “سمجھ نہیں آتی یہ آدمی میرا اتنا مخالف کیوں ہے ؟” یہ نطشے کی غلط فہمی تھی کہ دوستوئیسکی نے اپنا تصور خدا اس کے جواب میں پیش کیا ہے۔ وہ نطشے کے انکار خدا سے قبل اپنا مقدمہ پورا کرچکا تھا۔ اسی طرح انسان کا معاملہ دیکھئے تو وہاں انسانی نفسیات کے موضوع پر دوستوئیسکی اتنا حاوی ہے کہ نطشے کا ہی فرمانا ہے کہ نفسیات اس نے دوستوئیسکی سے زیادہ کسی سے نہیں سیکھی۔
رہا علم تو صرف ایک جملے سے ہی دوستوئیسکی کی گہرائی کا اندازہ لگا لیجئے۔ وہ جملہ ہے “ایک خاص درجے سے زیادہ شعور نری بیماری ہے” یہ مغرب کے پورے تصور علم کا انکار ہے۔ پھر آپ دوستوئیسکی اور ٹالسٹائی دونوں کا فطری پن دیکھئے کہ دونوں کا سب سے زیادہ زور “خاندان” پر ہے۔ جو سماج کی پہلی اکائی ہے۔ وہ اس اکائی کو توڑتے نہیں بلکہ مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ ہماری ایک بڑی بدبختی ہے کہ ہمارے ہاں توصیفی و تنقیدی دونوں ہی نظریں مغرب کی طرف رہیں۔ جس کی وجہ یقینا یہ رہی کہ یہاں دو سو سال تک برٹش راج رہا۔ ورنہ رشین لٹریچر کا مقابلہ کسی بھی خطے کا لٹریچر نہیں کرسکتا۔ اس سے سیکھنا چاہئے۔
مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ روسی سماج کے لئے لکھا گیا ہے۔ آپ اسے یہاں من و عن اپلائی کرکے بہتر نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنا سماج آپ نے اپنے تقاضوں کے مطابق تشکیل دینا ہے۔ مگر اس کے رموز آپ دوستوئیسکی اور ٹالسٹائی سے حاصل کرسکتے ہیں۔
جب یہ مرحلہ سر ہوگیا تو اس کے بعد سیاسیات کی باری آئے گی۔ اور اب آپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پولیٹکل سائنس آپ کے لئے حلوہ ثابت ہوگی۔ جب یہ بھی آپ پڑھ چکے تو اس کا پہلا ہی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ خود بخود اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ ہمارا پورے کا پورا سیاسی ڈھانچہ کتنی بڑی جہالت و غلاظت کا مجموعہ ہے۔ اور یہی شعور کسی مفید سیاسی نظام کی بنیاد بنے گا۔اگر آپ واقعی ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو راستہ یہی ہے۔ آپ سماجیات و سیاسیات کا شعور حاصل کئے بغیر ملک کے لئے کوئی بھی تعمیری اور مفید کردار ادا نہیں کرسکتے۔