کبھی ناختم ہونے والا نازک دور۔۔

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

"Conspiracies of the Elites Exposed!"

ملک کی ترقی کی باتیں کرنے والے سیاستدان اور تاجر دونوں بہت خوش نظر آ رہے ہیں، ہر جگہ اپنی واہ واہ کرتے ہوئے اور ترقی کے ثبوت پیش کرتے ہوئے کبھی غریبوں کی حالت پر بھی نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ غریب کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

اگر ملک کی ترقی اثاثوں میں اضافے سے بڑھ جاتی ہے اور تاجروں کے مزید امیر ہونے سے ہوتی ہے اور دنیا بھر سے قرض لے کر اپنی معیشت کا مستقبل سنوارنے نکلے ہیں تو یہ سب کچھ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ہوتا آ رہا ہے۔

پاکستان میں تعمیراتی امور پر بے پناہ دولت صرف کی جا چکی ہے مگر پاکستانیوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کوششیں ناپید ہیں۔ ہر دور میں غریب روتا نظر آتا ہے کہ مہنگائی ہو رہی ہے، اس کو کم کریں۔ غریب کو ہر دور میں یہی بتایا گیا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ان شاء اللہ آنے والے وقتوں میں چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔

عرصہ دراز سے وہی ماہرین معاشیات کام کرتے ہوئے نظر آئے جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ یا حمایت یافتہ رہے یا بیرون ممالک سے امپورٹ کیے جاتے رہے۔ ان نام نہاد معاشی ماہرین پر کبھی تنقید نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی مجرمانہ رویوں کی وجہ سے معیشت کا جو قتل ہوتا ہے، اس پر جواب طلبی کی گئی۔

ہم نے ایسے کئی معاشی ماہرین کو دیکھا جنہوں نے کئی ایسے قوانین بنائے جن سے پارٹی کو فائدہ ہوا یا ان کے دوستوں کو فائدہ پہنچا جو تجارت میں بڑا نام رکھتے ہیں۔

یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم چاند پر جانے کے خواب تو دیکھتے ہیں اور حقیقت میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن زمین پر غربت اور افلاس کا شکار غریب آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے کی سعی نہیں کرتے۔

ہم اداروں کو بیچنے کی بات کرتے ہیں مگر اداروں کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ حکومتی ادارے عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ حکومت انہی اداروں سے پیسہ کما کر ان پیسوں سے امور چلائے۔

افسوس کہ یہ ادارے صرف چند مخصوص طبقات کو سہولتیں فراہم کرنے تک محدود ہیں اور جب یہ ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں اونے پونے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔

آج ٹیکس کا جو بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے، اس کی وجہ بننے والے سرکاری اداروں کو ختم کیا جا رہا ہے اور ریاستی امور چلانے کے لیے اب کوئی سرکاری ادارہ پیسہ کما کر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا، جس کا اثر عام آدمی کی زندگی پر ہو رہا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں ریاستیں عوام سے لیے گئے ٹیکس اور دیگر ذرائع سے کمائے جانے والے پیسوں سے چلتی ہیں، لیکن پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے ادارے خود کما کر اپنا بوجھ اٹھانے کے بجائے سفید ہاتھی بن کر معیشت کو کچلنے میں مصروف رہتے ہیں۔

ریاستی امور کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ناکارہ اداروں کا بوجھ عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔ مہنگائی کا جن آج تک اس لیے قابو میں نہیں آ سکا کیونکہ ہمارے تاجر حضرات پاکستان کی تمام اشیاء کو ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ امیر سے امیر تر ہو جائیں اور حکومت کے خزانے بھریں۔

یہاں یہ نہیں سوچا جاتا کہ پاکستانی عوام کے لیے ہر وہ چیز مہنگی ہو جاتی ہے جو ایکسپورٹ کی جاتی ہے کیونکہ پاکستانیوں کے اپنے استعمال کے لیے وہ اشیاء دستیاب نہیں رہتیں۔

دنیا بھر میں عوام جب اشیاء استعمال کرتے ہیں اور کوئی چیز اضافی ہو تو اس کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں نظام ہمیشہ سے الٹا رہا ہے۔ ہم گندم اور چینی اضافی پیدا کرنے کے دعوے کرتے ہیں اور پھر وہی گندم اور چینی بیرون ملک سستے داموں بیچ دیتے ہیں، اور شومئی قسمت کہ چند دن بعد وہی گندم اور چینی کم پڑنے پر بیرون ممالک سے مہنگے داموں خرید کر معیشت کی قبر میں مزید کیل ٹھونک دیتے ہیں۔

پاکستان کی تمام صنعتیں ڈیڑھ سو فیصد سے زیادہ ترقی دکھا رہی ہیں، پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایک سال سے بھی کم عرصے میں 49 اعشاریہ 2 فیصد اوپر جا چکی ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام اداروں میں چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، ملازمین کی تنخواہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی کیونکہ اداروں کے مالکان اپنی ترقی کا سوچتے ہیں اور حکومت ان کی ترقی کے نتائج بتا کر ملک کی ترقی ظاہر کرتی ہے۔

پاکستان میں 80 فیصد غریب آدمی آج بھی عزت دار طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، مگر پھر بھی زندگی کو باعزت طریقے سے گزار نہیں پاتا اور محنت مشقت کرتے ہوئے صرف دو وقت کی روٹی کا ہی سوچنے تک محدود رہتا ہے۔

یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ انسانی حقوق نہیں، کہ غریب کے پاس پہننے کو کپڑا، رہنے کو چھت ایسی ہو جس سے اس کی زندگی آسان اور خوشحال ہو جائے۔ غریب آدمی شدید گرمیوں میں ایک ایسے کمرے میں رہتا ہے جسے بیرون ممالک کے لوگ ناقابل رہائش سمجھتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسے حالات عام آدمی کا مقدر سمجھا جاتا ہے۔

ہماری حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آنے والا مستقبل صرف اسی صورت بہتر ہوگا جب پاکستان کی عوام کی ترقی ہوگی۔ ہماری حکومتیں ہمیشہ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر خوشی ہوتی رہیں جن کی بنیاد پر معاشی ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ معیشت کی اصل ترقی وہ ہے جس میں انسان کی طرز زندگی بہتر ہو، ہمارے تعلیمی ادارے، سرکاری اسپتال، اور لوگوں کے گھر تینوں کا حال یکساں ہے۔

ٹوٹی پھوٹی حالت میں اپنے آپ کو لوگ زندگی کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ صرف سانس لینا زندگی نہیں، مگر ہمارے ہاں غریب ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس میں وہ رات کو سوتا ہے اور صبح اٹھ کر اپنے زندہ رہنے کے لیے دوبارہ جدوجہد میں لگ جاتا ہے اور خون کے آنسو پیتا رہتا ہے۔

خدارا حکومت سے التجا ہے کہ عوام کے بارے میں سوچیں، عوام کے لیے ہر وہ سہولت فراہم کریں جس سے ان کی زندگیوں میں بہتری آ سکے۔ اس کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی کہ کوئی بھی شخص یا تاجر از خود قیمتوں میں اضافہ نہ کرے۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب نجی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے بھی فعال کردار ادا کر سکیں۔

کچھ عرصے سے امید کی کرن نظر آ رہی ہے جب سے عوام نے دیکھا کہ پاکستان کی سرحدوں پر اشیاء کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، جو پہلے صرف کاغذوں میں ہی نظر آتے تھے۔ اب امید نظر آ رہی ہے کہ وہ بڑے لوگ اور مضبوط ہاتھ پاکستان اور عوام کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، اور اب سیاستدانوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ مضبوط ہاتھ چیزوں کو بہتر کر سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کر پاتے۔

حکومتی نمائندے عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، مگر افسوس کہ حکومتی نمائندوں نے ہمیشہ اپنی زندگیاں اچھی گزاریں اور ان لوگوں کو بھول گئے جنہوں نے انہیں ایوانوں تک پہنچایا، یہ سوچتے ہوئے کہ غریبوں کی آواز کو اسمبلیوں میں اٹھائیں گے اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کے لیے قانون بنائیں گے۔

سیاسی لیڈروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تو ہر دور میں ایوانوں میں آواز اٹھائی گئی ہے، لیکن ان کے کارکن ہمیشہ سے شہید ہوتے رہے یا جیلوں میں قید کی اذیتیں اٹھاتے رہے۔ ہمارے بچوں کو سیاستدانوں نے ہمیشہ جذباتی کرکے صرف استعمال کیا ہے۔

پاکستان اس وقت بدلے گا جب ہمارے پارلیمان میں پارٹیوں کے لیڈرز کے مسائل پر بحث کے بجائے عوام کے مسائل پر غور کیا جائے گا، اور اسی صورت میں پاکستان اس ہمیشہ سے پھنسے نازک موڑ سے بھی گزر سکتا ہے۔

Related Posts