یوکرین میں امریکی بے بسی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عالمی افق پر ان دنوں یوکرین کا بحران حاوی ہے۔ روسی فوجیں پوری جنگی تیاری کے ساتھ یوکرین کی سرحدپر کھڑی ہیں اور حسب روایت امریکہ بہت سے اتحادیوں سمیت اسی سرحد کی یوکرینی جانب موجود ہے۔ مگر یہ موجودگی سب کی ہی ہتھیاروں کے چندے کی صورت ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی فوج یوکرین میں اتار کر اس کی سلامتی یقینی بنانے کو تیار نہیں۔

اس بحران کو اور اس کے ممکنہ نتائج کو سمجھنے کے لئے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہوا تھا۔ تب امریکہ سے نیو ورلڈ آرڈر کی آوازیں بھی گونجی تھیں، اور ایک رعونت بھری آواز نے یہ بھی بتایا تھا کہ اکیسویں صدی امریکہ کی صدی ہوگی۔ اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی بنانے کی بڑھک مارنے والےاس صدی میں نائن الیون کے راستے داخل ہوئے۔

کہنے کو امریکہ ایک “سپر طاقت” ہے مگر اس کی تاریخ دیکھیں تو چلن اس کا بھارتی فلموں کے ولن والا ہے۔ بھارت کی فلموں میں ولن کا واسطہ جس ہیرو سے پڑتا ہے وہ عام طور پر یا تو کسی ریٹائرڈ سکول ٹیچر کا بیٹا ہوتا ہے یا پھر کینسر میں مبتلا کسی غریب بیوہ کی اکلوتی اولاد۔ لیکن ولن جب اسے “فتح” کرنے نکلتا ہے تو تین لینڈکروزروں، آٹھ جیپوں اور گیارہ موٹرسائکلوں پر بہت سے اتحادی ساتھ لے کر نکلتا ہے۔

یہ تماشا ہم عراق کے خلاف پہلی جنگ میں بھی دیکھ چکے تھے۔ اور یہی تماشا ہم نے نائن الیون کے بعد بھی دیکھا کہ امریکہ 44 ممالک کی مدد لے کر یوں افغانستان پہنچا جیسے مریخ پر ایلینز سے لڑنے گیا ہو اور اسے کچھ پتہ نہ ہو کہ اس مخلوق کے پاس کس قسم کی ٹیکنالوجی ہوگی ؟پہلے دو سالوں کی عظیم کامیابی دیکھ کر اس نے فیصلہ کیا کہ دھاک بٹھانے کے لئے ایک محاذ اور بھی کھول دینا چاہئے۔ اور یہیں سے اس کی ذلت کا سفر شروع ہوگیا۔

عراق گلے کی ایسی ہڈی بنا کہ نہ نگلی جائے اور نہ ہی نگلی جائے۔ جس ایران کو ہمیشہ دشمن باور کرایا تھا وہی عراق میں ان کی آڑ میں اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا گیا۔باراک اوباما آئے تو بدبختی یوں آخری حدوں کو جا پہنچی کہ ایک طرف عراق اور افغانستان میں ٹریلینز کے حساب سے آخراجات چل رہے تھے اور دوسری طرف معاشی بحران نے امریکہ کو گھیر لیا۔

اس مخدوش صورتحال میں ایران سے عراق میں لڑنا ایک خوفناک غلطی بن سکتی تھی۔ شیعہ اکثریت والے عراق میں سنیوں کی جانب سے تو اسے پہلے ہی مزاحمت کا سامنا تھا۔ ایسے میں ایران سے پنگا لیتے ہی شیعہ آبادی بھی خلاف ہوجاتی۔ یوں میدان عراق کا ہوتا، اور سپلائی لائن ایران سے چلتی تو امریکہ عبرت کی مثال ہوتا۔

ایک بڑے عالمی مالیاتی بحران کے دوران اس غلطی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ مگر امریکہ جنگ کے دو میدانوں میں موجود تو تھا۔ اب اسے جو بھی کرنا تھا تازہ حالات کی روشنی میں کرنا تھا۔ ان حالات میں باراک اوباما اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ یہ آئیڈیا لائی کہ ایران سے لڑنے کے بجائے اسے وہی مقام دے دیا جائے جو سعودی عرب کو حاصل ہے۔ اور اگلے 70 سال کے لئے مشرقی وسطٰی پر شیعہ ممالک کی بالادستی قائم کروا دی جائے۔

عرب سپرنگ اسی پالیسی کی ابتدا تھی۔ مگر کھیل مصر میں ہی بگڑ گیا۔ وہاں عوامی انقلاب کی جگہ “اخوانی انقلاب” آگیا۔ یوں حسنی مبارک کو نکالنے کا کفارہ سیسی کو لاکر ادا کردیا گیا۔ دوسری طرف لیبیا میں بھی حالات قابو سے نکل گئے۔ وہاں امریکی سفیر مارا گیا جس کی مدد کو امریکہ بہادر نہ پہنچ سکا۔اس سے اوباما ہی نہیں امریکی اسٹیبلیشمنٹ کو بھی کرارا جھٹکا لگا۔

اس کھیل میں سب سے اہم شام کا میدان ثابت ہوا۔ جسے اس سعودی عرب نے گرما دیا تھا جس کے حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ امریکہ انہیں عبرت کی مثال بنا کر ایران کو بالادستی دلوانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ سعودیوں کی شام میں گرفت کمزور کروانے کے لئے جنگ یمن منتقل کردی گئی تو ادھر شام میں ترکی نے بھی اپنا وزن ڈال دیا جس سے سعودیوں کو خاصا سکون ملا۔ مگر سب سے اہم چیز یہ ہوئی کہ روس بشار الاسد کی حمایت میں فوجی قوت سمیت شام پہنچ چکا تھا۔

روس کی آمد سے صورتحال باراک اوباما اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے لئے یوں مضحکہ خیز ہوگئی تھی کہ شیعہ ممالک کو تو انہوں نے اپنے کیمپ میں لانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ یوں دمشق کا دفاع اسے کرنا تھا مگر دمشق میں روسی آبیٹھے تھے، اور وہ بھی کامل سمجھداری کے ساتھ۔

روس نے بشار کا دفاع تو کیا مگر عرب ممالک سے کوئی پنگا نہ لیا۔ اس حکمت عملی سے اس نے عربوں کو باور کرادیا کہ اس کے عربوں کے خلاف کوئی عزائم نہیں۔
روس کی شام میں موجودگی کا سب سے بڑا سیاسی اثر یہ تھا کہ امریکہ تو اکیسویں صدی کو اپنی صدی بنانے کے لئے سرگرم تھا۔ اور اس نے سوچ رکھا تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب اسے کوئی چیلنج کرنے والا بھی موجود نہیں۔ مگر روس صرف دس بارہ سال بعد ہی ایک بار پھر امریکہ کی راہ میں کھڑا ہوگیا تھا۔

خلیج کی اسی صورتحال کواپنے حق میں بدلنے کے لئے امریکہ نے یوکرین میں کھیل رچانا شروع کردیا۔ نومبر 2013 میں یوکرینی صدر وکٹر یانکووچ نے یورپی یونین میں شامل ہونے کا منصوبہ ختم کیا تو امریکہ اور یورپی یونین نے اس منتخب صدر کے خلاف عوامی بغاوت کرادی۔ عین تحریر سکوائر کی طرح یوکرینی دارالحکومت کیف کے”میدان سکوائر” میں مظاہرین کی خیمہ بستی آباد کروا دی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں تو دیسی لبرل یہ بتاتے ہیں کہ لبرل جمہوریت میں “پرامن مظاہرے” کی ہی گنجائش ہوتی ہے اور یہ کہ منتخب حکومت کا خاتمہ جلاؤ گھیراؤ یا  سرکاری املاک پر حملوں کے ذریعے ہو تو یہ “حرام” ہوتا ہے۔ مگر یوکرین میں امریکہ نے یہی سب کروایا۔ اس نے سرکاری عمارتیں بھی نذر آتش کروائیں اور مظاہرین کو ہتھیار بھی فراہم کئے۔

تب یوکرین میں امریکی تکبر کا عالم یہ تھا کہ وہ یہ سب کچھ خفیہ طور پر کرنے کے بجائے اس حد تک علانیہ کر رہا تھا کہ اس کے سفارتکار روز میدان سکوائر جا کر مظاہرین کو شاباش دیتے۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ یورپین امور کے لئے امریکہ کی نائب وزیرخارجہ وکٹوریہ نولینڈ بھی میدان سکوائر پہنچیں اور مظاہرین میں سینڈویچ تقسیم کئے۔

امریکہ اس تشدد کے ذریعے یوکرینی صدر وکٹر یانکووچ کو ملک سے فرار کروانے میں تو کامیاب رہا مگر چند ہی ہفتے بعد روس کو یوکرینی جزیرے کریمیا پر قبضے سے نہ روک سکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوکرین کے مین لینڈ کو بھی روسی توپخانے سے نہ بچا سکا۔

روس یہیں تک نہ رکا بلکہ تاریخ میں پہلی بار اس نے امریکہ کے سیاسی نظام میں مداخلت شروع کردی۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ امریکی لبرلز کو اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو برسر اقتدار لانے میں اہم کردار ولادی میر پیوٹن کی “ففتھ جنریشن وار” کا ہے۔ دیسی لبرلز سے ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ مہذب اقوام انتخابی نتائج بے چوں و چرا قبول کر لیتی ہیں۔

اب صراحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ مہذب اقوام وہ “گوری اقوام” کو ہی کہتے ہیں۔ مگر تماشا دیکھئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو امریکی لبرلز نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ٹرمپ کی صدارت کا آغاز ہی پرتشدد مظاہروں سے ہوا۔ اور مظاہرین ایک ہی رٹ لگائے جا رہے تھے “یہ روس کا ایجنٹ ہے”۔

ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ بھی ہم نے دیسی لبرلز سے ہی سن رکھا ہے کہ “یہودی سازش” جیسی فرسودہ باتیں صرف مسلمان کرتے ہیں۔ مہذب اقوام سازشی مفروضوں کو اہمیت نہیں دیتیں۔ لیکن امریکہ میں کوئی اور نہیں بلکہ لبرلز ہی “روسی سازش” کا ڈھول پیٹ رہے تھے۔ ٹرمپ کے پورے دور صدارت میں پیوٹن سے اس کے خفیہ روابط کا معاملہ حاوی رہا۔

اٹارنی جنرل آفس نے اس کی خصوصی تحقیقات بھی کروائیں۔ اگر خود ٹرمپ کے بیانات دیکھے جائیں تو وہ واشگاف الفاظ میں کہتا آیا ہے کہ روس کو مستقل دشمن بنائے رکھنے کی امریکی اسٹیبلیشمنٹ کی پالیسی ناقابل قبول ہے۔ روس نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، یہ ہم ہیں جو ہمیشہ روس کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے کروڑوں حامیوں کا بھی یہی مؤقف ہے کہ روس ہمارا دشمن نہیں، اور یہ کہ ہماری روس سے متعلق پالیسی قطعی غلط ہے۔ یہ معاملہ اس حد تک جا چکا کہ یوکرین کی تازہ جنگی صورتحال میں امریکہ کا فاکس نیوز ان دنوں روس کی حمایت میں پروگرامز نشر کر رہا ہے۔

اگر ہم ذرا پلٹ کر خلیج کی طرف دیکھیں تو ٹرمپ نے اپنے دور صدارت کے دوران وہاں باراک اوباما اور امریکی اسٹیبلیشمنٹ کے اس منصوبے کو رول بیک کردیا تھا جس کے تحت عرب ممالک کی جگہ شیعہ ممالک کو بالادستی دلوانی تھی۔ اس نے ایران کے ساتھ اوباما اور یورپ کے ایٹمی معاہدے کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکا، سعودی عرب سے تعلقات پھر سے پرانی سطح پر پہنچائے اور جاتے جاتے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بھی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔

اگرچہ جو بائیڈن نے برسر اقتدار آتے ہی محمد بن سلمان کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ شائع کرکے اشارہ دیا ہے کہ وہ باراک اوباما والا کھیل ہی آگے لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن امریکی لبرلز کے رہنماء جو بائیڈن کی حالت قابل رحم ہے۔ ٹرمپ کا دائرہ اثر دن بدن مزید پھیلتا جا رہا ہے۔ اور لبرلز اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔

رواں سال 2022ء شروع ہوتے ہی امریکی لبرلز کو یہ خوف لاحق ہے کہ اس سال نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ٹرمپ کے حامی کانگریس میں بالادستی حاصل کر جائیں گے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ٹرمپ کے گرد گھیرا تنگ کرنے والی سلیکٹ کمیٹی تحلیل ہوجائے گی بلکہ نومبر کے بعد ریپبلکنز اس جو بائیڈن کا جینا بھی حرام کردیں گے جسے وہ قابض صدر مانتے ہیں۔

اور یہ صورتحال 2024 میں ٹرمپ کے ایک بار پھر منتخب ہونے یا پھر ٹرمپ کے کسی حامی کے بطور صدر منتخب ہونے پر منتج ہوگی۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا یا نہیں؟ لیکن اگر یہ حملہ ہوا تو امریکہ سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہ کر پائے گا۔ کیونکہ جو بائیڈن بخوبی جانتے ہیں کہ گھر یعنی امریکہ کے داخلی حالات اسے اس بات کی اجازت بالکل نہیں دیتے کہ پیوٹن کے راستے میں کھڑا ہوا جائے۔

پیوٹن ٹرمپ کی مدد سے امریکہ کو اس کے گھر کے اندر ہی تگنی کا ناچ نچانے کی پوزیشن حاصل کرچکا۔ 6 جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر حملے کی صورت وہی کچھ تو ہوا تھا جو امریکہ یوکرین، کرغزستان اور جارجیا وغیرہ میں کرواتا رہا ہے۔ پیوٹن امریکہ کو امریکی سٹائل میں ہی جواب دینے کی قدرت حاصل کرچکا۔

امریکہ کے داخلی حالات اسے اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتے کہ روس جیسی ایٹمی طاقت سے پنگا لے۔ کیا 44 ممالک کی مدد کے باوجود افغانستان کے خانہ بدوش مولویوں سے مار کھانے والا امریکہ روس سے لڑ پائے گا ؟

Related Posts