امریکا جس ڈھٹائی، بے شرمی اور سفاکیت کے ساتھ غزہ کو ملیامیٹ کرنے کی اسرائیلی کارروائیوں کا ساتھ دے رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ اسرائیل کے بجائے امریکا کی قومی مفاد کی اور امریکی قوم کے تحفظ و بقا کی جنگ ہو۔
کیونکہ امریکا کی جو بائیڈن انتظامیہ امریکی عوام اور ٹیکس دہندگان کی دولت کو اسرائیل کی اہل غزہ کیخلاف یکطرفہ جارحیت کو سہارا اور تقویت فراہم کرنے کیلئے لٹانے پر جس یکسوئی، سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ کمر بستہ ہے، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل در اصل امریکا کی جنگ لڑ رہا ہے، ورنہ ایک غیر ملک اور قوم کی جنگ اور پرائی لڑائی کو کوئی اس قدر دلجمعی اور یکسوئی سے کیسے اپنا سکتا ہے کہ اس کیلئے اپنی دولت اور اپنا اسلحہ سمیت اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کردے؟
ریاست اور حکومت کی سطح پر اسرائیل کے پلڑے میں امریکا کی تمام تر حمایت، مدد، تعاون اور دست گیری سے جہاں یہ تاثر سامنے آتا ہے کہ یہ امریکا کی ہی جنگ ہے اور اس کے مفادات کی ہی لڑائی ہے، وہاں امریکی عوام کی رائے کچھ اور ہی کہتی ہے بلکہ امریکی ریاست و حکومت کے اس شرمناک قول و عمل کے یکسر مخالف سامنے آ رہی ہے۔
آج دنیا میں اگر امریکی ریاست و حکومت اسرائیل کی سب سے بڑی پشت پناہ اور غزہ میں جاری اسرائیل کے ہاتھوں وحشت و سفاکیت کا کھیل جاری رہنے کی واحد ذمے دار ہے، وہاں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ دنیا میں اس وقت فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل اور اس کی ننگی جارحیت کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج اسی امریکا کے عوام کر رہے ہیں، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا کی رگِ جاں سازش اور حیلوں سے اپنے پنجے میں لینے والے مٹھی بھر صہیونی فتنہ پروروں نے ریاست امریکا کو کس طرح اس کے عوام کی سوچ اور جمہوری اصولوں کے بر خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کے غیر انسانی عمل میں ملوث کر رکھا ہے!
غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک وحشت اور سفاکیت کے اس ظالمانہ کھیل میں امریکا جس طرح کھل کر جمہوری اور انسانی اصولوں کو یکسر پامال کرکے اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے، وہ امریکی عوام ہی نہیں پوری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
ایک ایسا ملک جو خود کو دنیا کا تنہا سپر پاور باور کراتا اور اس مقام و منصب کے ساتھ خود کو دنیا میں امن اور جمہوریت کے قیام کا تنہا ذمے دار سمجھتا ہے، انسانیت کیلئے مقام شرم ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایک بڑی انسانی آبادی کی نسل کشی کے عمل میں علی الاعلان شریک ہے اور انسانیت کےخلاف اس جرم کا کوئی جواز دنیا کو فراہم کرنے کو ضروری نہیں سمجھتا۔
امریکا فلسطینیوں کی نسل کشی کی ”جنگ“ میں جس طرح علانیہ شامل ہے، یہ بھی کس قدر تعجب انگیز ہے کہ امریکا اسی طرح ڈنکے کی چوٹ پر جمہوریت اور امن عالم کا بھی ٹھیکیدار ہے، مگر اس بھری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو امریکا کی منافقت کا پردہ چاک کرے اور اسے جمہوریت، امن اور انسانی حقوق کا آئینہ دکھا کر پوچھے کہ اس کے پاس غزہ میں معصوم بچوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت لاکھوں انسانی آبادی کو بلا امتیاز بارود کا نشانہ بنانے کے سفاکانہ عمل کی حمایت کا کیا جواز ہے؟ امریکا سے باز پرس نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پوری دنیا پر مہیب خاموشی چھائی ہوئی ہے، جس میں صرف اسرائیل کے تباہ کن حملوں کی ہولناک آواز ہی ہر طرف گونج رہی ہے۔
امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت پوری مغربی دنیا میں عوام کی بہت بڑی تعداد اسرائیل کے ظلم و جارحیت اور اپنی حکومتوں کی جانب سے اس کی غیر مشروط حمایت کےخلاف مسلسل سڑکوں پر ہے، گزشتہ دن سینکڑوں امریکیوں نے اس امریکی اسلحہ ساز کمپنی کا گھیراو بھی کیا، جس کا اسلحہ غزہ کے بچوں کے قتل عام میں استعمال ہو رہا ہے، مگر امریکا پوری دنیا کی اکثریت کی مذمت اور مخالفت کے باوجود تمام اخلاقی، انسانی اور جمہوری اصولوں کو پاوں سے ٹھکراتے ہوئے اسرائیل کی ناجائز حمایت پر کمربستہ ہے۔
وقت آگیا ہے کہ دنیا اسرائیل کی مذمتوں کے بجائے براہ راست امریکا سے بات کرے اور امریکا کو ہی اس قتل عام کا ذمے دار ٹھہرا کر اسرائیل کے ساتھ ہی اسے کٹہرے میں کھڑا کرے۔
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکا اور جو بائیڈن کے نہ چاہتے ہوئے غزہ کے بچوں کا قتل جاری نہیں رہ سکتا۔ امریکا اور جو بائیڈن آج ہاتھ کھینچ دیں، غزہ میں انسانیت کا قتل عام کل نہیں، آج ہی رک جائے گا اور اسرائیل کو اپنے وجود کی بقا خطرے میں پڑتی دکھائی دے گی۔ اقوام متحدہ کے ایک سابق اہلکار نے غزہ میں وحشت و تباہی کے مناظر دیکھنے کے بعد درست کہا تھا کہ یہ دنیا اسرائیل کے بغیر بہت اچھی جگہ ہوسکتی ہے! اور دنیا کی یہ خوبصورتی امریکا کے فقط ایک انسانیت دوست فیصلے پرمنحصر ہے۔