نیب قوانین کی ترامیم نے ٹرائل کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے، سپریم کورٹ

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ نیب قوانین کی ترامیم نے ٹرائل کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے، انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ کرپشن ثابت نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترامیم کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام نیب کیسز احتساب عدالتوں کو بھیجے تو کئی افراد تمام الزامات سے بری ہوئے۔

کرپٹ افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اسی پر چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم سے براہِ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے؟ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟ ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آئے گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟قانون کا ایک بینچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے، اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا معذور افراد پر کنونشن آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے، کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں گے، عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ ایف آئی اے کے کئی کیسز بغیر کسی قانونی طریقہ کار نیب کو منتقل ہو گئے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کرپشن پر قوانین موجود ہی نہ ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں، آخر میں قانون پارلیمنٹ نے ہی بنانا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے؟میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے، قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں، کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟

مزید پڑھیں:عمران خان پر قاتلانہ حملے کی آئینی سطح پر تحقیقات کروائی جائیں، سپریم کورٹ میں درخواست دائر

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم کے بعد ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ کرپشن ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کیے جا رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں توبنیادی حقوق کیسے متاثر ہوگئے؟

Related Posts