پی پی پی پر منفی ہتھکنڈوں کا الزام

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی وفاقی و صوبائی سطح کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنے خون سے اس پارٹی کی بنیادوں کو سینچا اور موجودہ قیادت اس شجرِ سایہ دار کا پھل کھا رہی ہے۔ 

عالمی سطح پر جب کوئی ایک ملک دوسرے سے مذاکرات کرتا ہے تو سب سے زیادہ جو عوامل ان دو ممالک کے مذاکرات کو متاثر کرتے ہیں وہ ان دونوں ممالک کے مفادات ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے مفادات کی بنیاد پر کوئی اقدام اٹھائے، تو اسے جائز سمجھنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں کیاجاتا۔

اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے کہ اگر ممالک کی سطح پر مفادات کی بات کی جائے تو وہ ملکی بلکہ قومی مفادات ہوتے ہیں جو متعلقہ ملک کے ہر شہری کو عزیز ہوتے ہیں اور وہ ان کیلئے اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتا ہے، لیکن پارٹی کے مفادات بعض سیاسی رہنماؤں یا اس پارٹی کی قیادت کے مفادات ہوا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب اپنے مفادات کو عزیز جانتے ہوئے پیپلز پارٹی کی جانب سے مرتضیٰ وہاب نے یہ کہا کہ اگر کسی اور پارٹی کا میئر کراچی آیا تو وہ اختیارات کا رونا ہی روتا رہے گا اور اگر پیپلز پارٹی کا ہوا تو معاملات چلانے میں آسانی ہوگی تو پی پی پی کو شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔

گزشتہ روز امیر جماعتِ اسلامی کراچی نے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کی مرضی کی قانون سازی کو قبول نہیں کریں گے۔ حالانکہ سندھ حکومت میں اکثریت پی پی پی کے اراکین کی ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں کی تعداد آٹے میں نمک کی سی ہے۔

پھر بھی امیر جماعتِ اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی خاس قسم کا وڈیرہ مائنڈ سیٹ رکھتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ پی پی پی کا میئر نہ آیا تو وسائل نہیں ملیں گے۔ آپ فنڈز نہین روک سکیں گے۔ آپ کچھ نہیں کرسکیں گے، میئر تو جماعتِ اسلامی ہی کا آئے گا۔

حافظ نعیم الرحمان نے پیپلز پارٹی پر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا، تو یہاں سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی درست کہہ رہی ہے یا جماعتِ اسلامی؟ کیونکہ دونوں ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنا میئر لانے کی کاوشیں جاری ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق میئر کراچی وسیم اختر اکثر و بیشتر اختیارات کا رونا رویا کرتے تھے اور جب بھی ان سے کراچی کے مختلف مسائل کے حل کیلئے کہا جاتا ، وہ کہتے تھے کہ میرے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ مرتضیٰ وہاب کا یہ بیان کہ کسی اور جماعت کا میئر آیا تو اپنے اختیارات کا رونا ہی روتا رہے گا، 2 نکات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پہلی  بات تو یہ کہ وسیم اختر جو کہتے تھے کہ میرے پاس اختیارات نہیں ہیں، وہ اگر مکمل طور پر سچ نہیں تھا تو مکمل جھوٹ بھی نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ اگر جماعتِ اسلامی کا میئر آگیا تو واقعی وہ اپنے اختیارات کا ہی رونا روتا رہے گا۔ پیپلز پارٹی، جس نے پہلے ایم کیو ایم کے میئر کو اختیارات نہیں دئیے، وہ جماعتِ اسلامی کو کیسے دے سکتی ہے؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی مفادات کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کا بھی تحفظ کرے۔ گزشتہ کئی سال سے سندھ حکومت کے اہم عہدوں پر براجمان پی پی پی سے صوبے کے عوام بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر وہ پوری نہ ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے سیاسی مستقبل کیلئے بھی سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں۔ 

Related Posts