قومی سلامتی کے تقاضے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت کسی بھی جمہوری حکومت میں وفاقی وزراء کے بیانات کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ انہیں نہ صرف حکومت کے سرکاری مؤقف کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ حکمران جماعت کی پالیسیوں، ارادوں اور سمت کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔

عوام مختلف مسائل پر حکومت کے مؤقف کو سمجھنے اور اس کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے ان بیانات کی طرف دیکھتے ہیں۔ وفاقی وزراء کے کہے گئے الفاظ رائے عامہ کو تشکیل دے سکتے ہیں، قومی گفتگو کو متاثر کر سکتے ہیں اور طرز حکمرانی  کو بھی بدل سکتے ہیں۔

اس تناظر میں ایک وزیر دفاع کا بیان اور بھی زیادہ وزن رکھتا ہے۔ وزارت دفاع ایک اہم ادارہ ہے، جو کسی قوم کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ وزیر دفاع کے بیانات کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی وزیر دفاع کے لیے ضروری ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور اپنے الفاظ کا انتخاب دانشمندی سے کریں، کیونکہ وہ ملک کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتے ہیں اور دنیا کو ملک کی سلامتی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اس وقت خواجہ آصف پاکستان کے وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حکومت میں ایک اہم شخصیت کے طور پر ان کے بیانات کو بہت اہمیت حاصل ہے اور پاکستان کے لوگ دفاع سے متعلق معاملات میں رہنمائی کے لیے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔

حال ہی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان دیا جس سے عوام میں بے چینی پھیلی اور متعدد افراد نے اپنے اپنے خدشات و تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ وزیرِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کی پاکستان میں آباد کاری اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمت عملی تھی اور اسے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ یہ بیان متعدد محاذوں پر اثرات و مضمرات کا حامل ہے جس کا تجزیہ بھی محتاط طور پر کیا جانا چاہئے۔ 

اوّل تو اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ گفتگو کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ اور سابقہ حکومت پر خواجہ آصف کی جانب سے سنگین الزامات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر بھی کالعدم عسکریت پسند گروپوں کی حمایت کا دعویٰ کسی سنگین الزام سے کم نہیں  جس پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کسی بھی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے بیانات سے قومی سلامتی، سفارتی تعلقات اور عوامی تاثرات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اگر بیان درست ہے تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد اور ارادوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر واقعی اسٹیبلشمنٹ کالعدم ٹی ٹی پی رہنماؤں کی آباد کاری میں ملوث تھی، تو اس سے ان کی ترجیحات اور وفاداریوں کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے اندر شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کی روشنی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات الجھن، بداعتمادی اور عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں، اور ہر قیمت پر اس سے بچنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ یا کسی دوسرے ادارے کے خلاف الزامات کو ٹھوس شواہد کی حمایت اور مناسب کارروائی سے مشروط کیا جانا چاہیے۔

اگر وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان درست ہے تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات اور ارادوں پر شدید تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ریاست کا ایک اہم ستون ہونے کے ناطے ملک کے بہترین مفاد میں کام کرنا چاہیے اور اپنے آئینی مینڈیٹ کو برقرار رکھنا چاہیے۔ کالعدم عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ کسی قسم کی حمایت یا شمولیت ناقابل قبول ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔

Related Posts