کہیں آس ٹوٹ نہ جائے

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستان کے دگرگوں حالات مخدوشیت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں اور بہتری کی کوئی امید نظر آنے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ حالات بہتری کے بجائے انتشار، تناؤ، سیاسی رسہ کشی اور تقسیم کی طرف لے کر جارہے ہیں۔

ایسے میں جب معاشی تباہی کی کالی گھٹائیں ہمارے سروں پر چھائی ہوئی ہیں اور آئی ایم ایف کی بندوق ہماری کنپٹی پر رکھی ہے اور جب دشمن ہماری کسی بھی کمزوری کے متلاشی ہیںکہ انہیں موقع ملے اور وہ گدھ بن کر ہماری بوٹیاں نوچنے کیلئے پہنچ جائیں تو ان حالات میں ہمارے اندرونی مسائل کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کونسل کے اجلا س سے پہلے ہی ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اپنے مذموم مقاصد ظاہرکردیئے ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کیلئے بھی بھارت ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ایران نے بھی 18 ارب ڈالر کا نوٹس بھیج دیا ہے۔

اس وقت ملک میں حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے پاس کھانے کیلئے روٹی نہیں ہے اور اس پر ستم یہ کہ سیاستدان آپس میں دست و گریباں ہیں، ایسے میں پل پل مرتی اور جان کنی کی حالت کو پہنچی ہوئی قوم کی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

وہ لوگ جو اس امید پر ہیں کہ تاج شاہی کے قصیدے جو اس ملک میں چلتے رہے ہیں ان قصیدوں کو کم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، معاشرے میں تیزی سے سرائیت کرنے والی فاقہ کشی کو کم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن سیاستدانوں کو گلچھرے اڑاتے اور آپس میں جھگڑتا دیکھ کر لوگوں کی آس اور امید ٹوٹتی نظر آتی ہے۔
بقول شاعر
سانس ٹوٹ جاتی ہے
آس ٹوٹ جانے پر
جہاں تک جیل بھرو تحریک کا تعلق ہے تو آئین کے آرٹیکل 15 اور 16 کے تحت عوام کو پر امن احتجاج کی اجازت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر آجائیں تو پھر آرٹیکل 15 اور 16 کی پاسداری کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے جیل بھرو تحریک کی طرف گامزن ہوتے ہوئے راستے بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور جب راستے بند کئے جائینگے اور رسد گاہیں بند ہوجائینگی تو سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ بھی ہوگا اور لاٹھیاں اور پتھر بھی چلیں گے تو ان حالات میں فائرنگ بھی ہوسکتی ہے۔

یہاں سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان ایک بار پھر ہمارے لئے سوہان روح بن چکی ہے اور پاکستان میں گزشتہ کچھ ہفتوں سے جاری پے در پے حملوں کے باوجود اگر سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ شروع ہوتا ہے تو اس صورتحال سے ٹی ٹی پی فائدہ اٹھاسکتی ہے جس سے کسی جماعت کا نقصان ہویا نہ ہو ریاست پاکستان کا نقصان یقینی ہے۔

یہاں تک عمران خان صاحب کے نوازشریف کیلئے میدان سازگار بنانے کا دعویٰ ہے تو پاکستان کی سیاست میں تسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہےکہ عروج پر جانے والی جماعت کی طرف سے مخالف جماعتوں کیخلاف جتنا ممکن ہو اتنے زیادہ کیسز بنائے جاتے ہیں۔

ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے بھی اس روایت کو پروان چڑھایا تاہم پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سیاسی مقدمات اور قیدیوں کی تعداد انتہائی کم رہی لیکن سیاسی دور ہو یا ڈکٹیٹر شپ ہر دور میں سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگایا گیا۔

پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں بر سر اقتدار وزیراعظم ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہو کہ میں اپنے ہاتھوں سے مخالفین کو پھانسی دونگا، جیلوں میں ڈال دونگا اور سزائیں دونگا، یہ وزیراعظم کا کام نہیں بلکہ یہ اداروں کا کام ہے، پولیس اور عدلیہ کا کام وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔

عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کا کہنا درست ہے کہ مائنس ون کی کوشش ہورہی ہے لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نوازشریف کو مائنس نہیں کیا گیا، کیا یوسف رضا گیلانی کو مائنس نہیں کیاگیا، ایم کیوایم کو بھی مائنس کا طوق گلے میں ڈالنا پڑا۔ ملک میں آئین کی پاسداری میں ہی تمام مسائل کا حل مضمر ہے لیکن افسوس کہ سیاستدان خود دستور کی پاسداری کرنے سے گریزاں ہیں۔

ملک کے حالات انتہائی تشویشناک ہوتے چلے جارہے ہیں، بھوک اور بدحالی کا گراف اپنی حدوں کو چھورہا ہے اور تیل کے ذخائر کم ہوتے جارہے ہیں  اور حالات کو دیکھتے ہوئے معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کے خدشات تقویت پکڑ رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی کے تحت ایک سال کیلئے الیکشن کو ملتوی کیا جاسکتا ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ معاشی ایمرجنسی کے تحت الیکشن کا التواء آئینی حربہ ہے لیکن آئین کے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کے کبھی بھی نتائج اچھے نہیں ہوتے لیکن اگر سیاسی اکابرین الفاظ کا چناؤ بہتر کرلیں تو شائد سدھار ممکن ہوجائے اور اپنی نئی نسل کو بہتر پاکستان دے سکیں۔

ہمارے سیاستدانوں کی حرکات و سکنات ملک کی ایک نئی تاریخ مرتب کرتے جارہے ہیں لیکن تاریخ مرتب کرتے ہوئے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت چند قدغنوں کے باوجود جو تاریخ رقم ہورہی ہے وہ کسی صورت سنہری حروف میں نہیں لکھی جاسکتی۔
بقول شاعر
ہر دور میں اشارۂ ابروئے شاہ پر
کل کے مؤرخین جھکے ہیں حضور میں
تاریخ وہ نہیں ہے جو لفظوں میں قید ہو
تاریخ لکھی جاتی ہے بین السطور میں