ہمارا تعلیمی نظام پرانی اچار کی برنی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بچوں کی تعلیم ایک کاروبار ہے یا سیاست؟ نہ آج تک یہ بات والدین کو سمجھ میں آئی اور نہ ہی بچوں کو۔ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدبچوں کو سندیں تو مل جاتی ہیں  مگر ان کی تعلیم کا معیار بلند نہیں ہوتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بچپن سے بچوں پر تشدد کرکے انہیں تعلیمی اداروں کی جانب لے کر جاتے ہیں اور وہ تشدد کا سلسلہ برقرار رہتا ہے تمام اداروں میں۔ بچوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ان پر یہ زیادتی ہورہی ہے یا اس میں ان کیلئے کوئی بہتری بھی ہے۔

تعلیم حاصل کرنے والے نوے فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہوئے ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور تعلیم کا شوق کم ہوتا ہے مگر ڈگری حاصل کرنا اور آگے بڑھنے کا جذبہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ آگے جا کر ڈگری تو حاصل ہوجاتی ہے مگر آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوتا ہوا نظر آنے لگتا ہے۔

دنیا بھر میں تعلیم کا مطلب انسان کی سوچ کو بہتر کرنا، اس کی طرزِ زندگی کو بہتر کرنا اور جس شعبے میں وہ کام کرے، اس میں مہارت حاصل کرکے دنیا کیلئے آسائشیں پیدا کرنا ہے۔ ہمارے یہاں تعلیم کا معیار ہمیشہ سے ایسا رہا ہے جیسے ایک طوطے کو کوئی بھی الفاظ سکھا دے تو وہ طوطا اسے کئی بار بولتا نظر آتا ہے مگر طوطے کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا بول رہا ہے۔

تعلیم حاصل کرنے کے فوائد یہی بتائے جاتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو گے تو امیر ہوجاؤ گے۔ تعلیم حاصل کرو گے تو پیسے والے ہوجاؤ گے اور اسی پیسے کے شوق کو لے کر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کیلئے سب سے اہم چیز پیسہ بن جاتی ہے۔  وہ پیسے کو انسانیت سے بڑھ کر اہم سمجھتا ہے۔ وہ ہر رشتہ پیسے کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے اور اسے اردگرد کی دنیا میں جو لوگ نظر آتے ہیں وہ پیسے ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

تعلیم کا مطلب انسان کا شعور حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب انسان شعور حاصل کرتا ہے تو پھر وہ تعلیم کا درست استعمال کرتا ہے اور پھر اپنی زندگی کو اور دنیا کے لوگوں کی زندگیاں آسان کرتا ہے۔ آج پاکستان میں اسکول سے لے کر یونیورسٹیاں تک پیسے کمانے کی انڈسٹری بن چکی ہیں۔

ان انڈسٹریز میں بچوں کو پڑھانے کیلئے مہنگی مہنگی فیس لی جاتی ہے اور بچوں کو کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے۔ بچوں کے ذہنوں کو سوچنے کی صلاحیت سے محروم کرکے انہیں رٹا لگا کر طوطا بنایاجاتا ہے اور اسی رٹے کے امتحان کی وجہ سے اسے ڈگری دی جاتی ہے۔

دوسری جانب امتحان لینے والے بھی اسے اپنا ایک کاروبار سمجھتے ہیں جو امتحان کے کمروں میں بیٹھے ہوئے بچوں سے پیسے وصول کرکے ان کو ان سوالوں کے جواب بتا رہے ہوتے ہیں جن سے بچے ڈگری حاصل کرسکتے ہیں۔ جو امتحان لے رہے ہوتے ہیں، وہ اسے برا بھی نہیں سمجھتے کیونکہ وہ بھی انہی اسکولوں سے آتے ہیں جن اسکولوں میں بچوں کو فیس کے بارے میں ہر ماہ یاد دلایا جاتا ہے اور ان کے ماں باپ کو ذہنی تشدد کا شکار بناتے ہیں کہ اگر آپ نے پیسے ادا نہیں کیے تو آپ کے بچوں کو تعلیم سے محروم کردیا جائے گا۔

تعلیمی اداروں کو چلانے والے حکومتی اہلکار اس نظام کو بدلنے کی جگہ بڑے بڑے سیمینار کرتے ہیں جن میں وہ باہر کی کتابوں کی نمائش اور ان کے طرزِ تعلیم کی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر آج تک پاکستان کے تعلیمی نظام کو بدلا نہیں جاسکا۔ باہر کے نظام میں بچے کو اسکول کی سطح سے ہی ایسا ماحول مہیا کیا جاتا ہے جس سے بچہ اپنی طرزِ زندگی کو بہتر بنا سکے اور ان اسکولوں کے ماحول ایسے دلچسپ ہوتے ہیں کہ بچے بڑے شوق سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں۔

وہاں کے امتحانوں میں نہ تو چیٹنگ ہوتی ہے، نہ پیسوں کا کاروبار کیاجاتا ہے۔ 70 فیصد امریکی لوگ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک کامیاب زندگی بھی بسر کرتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ امریکا نے آج تک اپنے تعلیمی نظام کو کاروباری نہیں بنایا؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں 70فیصد اسکول پرائیویٹ ہیں اور امریکا میں 70 فیصد اسکول سرکاری ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام زیادہ عقلمند ہیں جو اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں یا امریکا کے عوام جو سرکاری اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکی لوگ اس وجہ سے سرکاری اسکولوں میں پڑھاتے ہیں کیونکہ ان کے سرکاری اسکولوں میں اچھی اور معیاری تعلیم و تربیت دی جاتی ہے جو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہوتی ہے۔ وہاں نہ تو بچوں پر سختی کی جاتی ہے اور نہ ایسا ماحول دیا جاتا ہے جس کے خوف سے بچہ اسکول سے ہی بھاگ جاتا ہے۔

اگرہم پاکستان کے سرکاری اسکول کی بات کر یں تو ایسا ماحول ہے جس سے بچے گھبراتے ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کے اساتذہ اور ماحول ہے جو بچوں کیلئے ایک جہنم سے کم نہیں۔ تاہم جو لوگ امیر ہیں اور پاکستان میں پرائیویٹ اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کراتے ہیں، ان کے بچوں کو صرف وی آئی پی کلچر دیا جاتا ہے جس کے وہ عادی ہوجاتے ہیں اور پھر بڑے ہو کر چاہے افسر بنیں یا کاروباری شخصیت، انہیں اس وی آئی پی کلچر اور تعلیم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

وی آئی پی کلچر کے اسکولوں سے نکلنے کے بعد وی آئی پی یونیورسٹیز سے صاحبِ حیثیت لوگ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں مگر تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان ڈگریوں کی بنیاد پر سرکاری اداروں میں یا بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ انہی ڈگریوں کو لے کر ہمارے سیاست دان بھی سیاست کے میدان میں آتے ہیں اور ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔

اب آپ 70فیصد عوام ، جو اسکولوں اور یونیورسٹیز سے وی آئی پی کلچر سیکھ کر آرہے ہیں، ان سے آپ انسانیت، اخلاقیات اور ایتھکس کی کیسے توقع کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں تو ہمیشہ سے یہی سکھایا گیا ہے کہ جو سب سے زیادہ پیسے والے باپ کی اولاد ہے، اس کو ان اسکولوں اور یونیورسٹیز میں زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ انہی کے ماں باپ کو چیف گیسٹ بنایاجاتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی غریب، ایماندار آدمی کو کسی بھی ایونٹ کا چیف گیسٹ بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ہمارا تعلیمی نظام ایک پرانی اچار کی برنی کی طرح ہے جس کا ہم اچار نکال کر مختلف پیکنگ میں دیتے رہتے ہیں۔

Related Posts