احمد الشرع کا جرمن خاتون وزیر خارجہ سے ہاتھ ملانے سے گریز، نیا تنازع کھڑا ہوگیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو عرب میڈیا

کل جرمن خاتون وزیر خارجہ انالینا بیربوک سقوطِ بشار کے پہلی بار دمشق پہنچیں، مگر شام کے حکام نے ان سے ہاتھ ملانے سے گریز کیا، جس پر عرب و غرب کے سوشل میڈیا میں ایک بحث چھڑ گئی ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق اس تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ انالینا نے کہا کہ انہیں اس صورتحال کے پیش آنے کی توقع تھی۔ اس سیاق میں سفارتی پروٹوکول شروع سے ہی واضح تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہاں عام مصافحہ نہیں ہوگا۔

کرم میں سرکاری گاڑیوں پر حملہ کیسے ہوا؟ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آگئی

جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ فرانسیسی ہم منصب ژاں نوئل بارو بھی موجود تھے۔ بیربوک نے وضاحت کی کہ انہوں نے اور بارو نے نئی انتظامیہ کے قائدین کو یہ باور کرایا کہ خواتین کے حقوق کسی بھی معاشرے کی آزادی کا بنیادی پیمانہ ہیں، بلکہ یہ کسی معاشرے کی آزادی کی سطح کا عکس ہیں۔

بیربوک دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچنے کے وقت بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے نظر آئیں۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ نئی شامی انتظامیہ کے حکام نے ان کا استقبال صرف باتوں اور مسکراہٹ سے کیا، بغیر مصافحہ کیے، جبکہ وفد میں شامل مردوں سے ہاتھ ملایا گیا۔

پھر صدارتی محل میں بھی یہی عمل دہرایا گیا، جہاں احمد الشرع نے بیربوک کی طرف مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور پھر سینے پر ہاتھ باندھ کر احترام بجالایا، لیکن ہاتھ نہیں بڑھایا، جبکہ ان کے فرانسیسی ہم منصب سے مصافحہ کیا۔

یہ قانون کے محافظ ہیں؟ کرپٹو تاجر کو اغوا کرکے کروڑوں روپے تاوان بٹورنے والے سی ٹی ڈی اہلکار نکلے

احمد الشرع کے جرمن وزیر خارجہ سے مصافحہ نہ کرنے پر کچھ تبصرہ نگاروں نے ان پر تنقید کی، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے سرکاری منصب کے لحاظ سے یہ نامناسب تھا۔ دوسری جانب کچھ لوگوں نے اس عمل کو ذاتی عقائد کی آزادی سے جوڑ کر اس کا دفاع کیا۔

بحث صرف الشرع کے رویے تک محدود نہیں رہی۔ جرمن وزیر خارجہ کے لباس نے بھی کچھ تبصرہ نگاروں کی ناراضی کو جنم دیا۔ کچھ نے وزیر خارجہ کے لباس کو “صبح کی نسوانی ملاقاتوں” کے لیے موزوں قرار دیا، جبکہ دوسروں نے اس لباس کے انتخاب کو “سفید فام مرد کی برتری کے احساس” سے جوڑ دیا۔

یہ حوالہ بیربوک کے ان بیانات کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا، جن میں انہوں نے یورپی یونین کی شرائط کے تحت شام کے نئے سیاسی عمل کی حمایت کا ذکر کیا تھا۔ بیربوک نے سفید رنگ کی قمیص اور پینٹ پہنی ہوئی تھی، جسے ناقدین نے سفارتی مشن کے لیے نامناسب قرار دیا۔

واضح رہے کہ بشار الاسد کے نظام کے خاتمے کے بعد، جرمن وزیر خارجہ بیربوک اور فرانسیسی وزیر خارجہ بارو کا شام کا یہ دورہ یورپی عہدیداروں کی جانب سے پہلا دورہ ہے۔ یہ دورہ 8 دسمبر کو اسد حکومت کے خاتمے اور بشار الاسد کے فرار کے بعد ہوا، جس سے ان کے خاندان کی دہائیوں پر محیط حکمرانی کا اختتام ہوا۔

68 سالہ سابق بینک سربراہ نے اپنے بیٹے کی منگیتر سے شادی کرلی

احمد الشرع کے ساتھ ملاقات کے دوران، دونوں یورپی وزراء نے ایک محتاط امید پر مبنی پیغام دیا۔ اس میں نئی انتظامیہ کو اعتدال پسند رویہ اپنانے اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کی دعوت شامل تھی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپ، شام کے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔

Related Posts