افغان تماشائیوں کی ہنگامہ آرائی

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے پاک افغانستان میچ میں پاک بھارت میچ سے بھی بد تر صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب میچ میں اپنی ٹیم کو شکست سے دوچار دیکھ کر افغان تماشائی آپے سے باہر ہو گئے اور اسٹیڈیم میں خوب ہنگامہ آرائی کی۔

بین الاقوامی محاذ پر پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں جب 20 سالہ جنگ کا اختتام ہوا تو یہ پاکستانی قوم ہی تھی جو امریکا کو ناکام قرار دے رہی تھی کیونکہ طویل جنگ سے امریکا کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔

طویل عرصے سے مسلسل خانہ جنگی کا شکار افغانستان کو طالبان حکومت میں سکھ کا سانس نصیب ہوگا، اس امید پر پاکستان نے اپنا یہ مؤقف رکھا کہ افغانستان میں قیامِ امن دراصل پاکستان کے امن کا ضامن ہے تاہم افغانیوں کو شاید یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

جب پاکستان کے نسیم شاہ نے آخری اوور میں 2 چھکے لگا کر پاکستانیوں کا دل جیتا تو افغان تماشائیوں نے اسٹیڈیم میں شدید ہنگامہ آرائی کی اور کرسیاں اٹھا اٹھا کر پاکستانی تماشائیوں کو ماریں۔ واقعے کی ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔

بعد ازاں اسٹیڈیم میں توڑ پھوڑ کرنے والے ہر تماشائی کو متحدہ عرب امارات حکومت نے 3 ہزار درہم کا جرمانہ کیا جو پاکستان کے حساب سے 2 لاکھ روپے فی کس بنتے ہیں۔ حکومت نے فساد کرنے والے تماشائیوں کو تنبیہ کی کہ آئندہ یہی تاریخ دہرانے پر قید اور ڈی پورٹ کی سزا دی جاسکتی ہے۔

دبئی پولیس نے شارجہ اسٹیڈیم میں ہنگامہ آرائی پر 97 افغانیوں کو گرفتار کیا اور حیرت انگیز طور پر 117 افغانی متحدہ عرب امارات کے دیگر حصوں سے بھی پاکستانیوں سے ہاتھا پائی کے الزام میں گرفتار ہوئے۔

گرفتار کیے گئے 391 افراد کی ہنگامہ آرائی، پاکستانیوں سے بد تمیزی اور ہاتھاپائی من حیث القوم پاکستان اور افغانستان دونوں کیلئے فکر کا مقام ہے کہ افغان قوم پاکستانیوں کی اتنی دشمن کیوں ہے؟ کیا دونوں ممالک کا مسلمان ہونا باہمی اظہارِ یکجہتی کیلئے کافی نہیں؟

افغان مہاجرین کو عرصۂ دراز سے پناہ گزینوں کی حیثیت سے سر کی چھت اور روزگار فراہم کرنے والا ملک پاکستان ہے اور جب بھی افغان عوام پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ سرحد عبور کرکے پاکستان پہنچ جاتے ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ یہاں سے انہیں ڈی پورٹ نہیں کیاجائے گا۔

لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے باوجود پاکستان پر سرحد پار سے دہشت گردی کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے اور طالبان حکومت ان  معاملات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔

سوال یہ ہے کہ  40 لاکھ کے لگ بھگ پناہ گزینوں کو 40 سال تک پناہ دینے کے باوجود افغان قوم پاکستان کی قدر کیوں نہیں کرتی؟ کیوں پاکستانی پرچم پاکستان مخالف جلوسوں میں جلا دیا جاتا ہے؟ اور کیوں ہمارے سفارتخانوں پر حملے کیے جاتے ہیں؟

دراصل افغان قوم انفرادی دوستی، دشمنی اور ذاتی یا قبیلہ جاتی مفاد پر زیادہ یقین رکھنے والی قوم ہے۔ یہ لوگ آج تک ایک قوم کی طرح سوچنا نہیں سیکھ سکے۔ ان کا قومی مفاد بھی گروہی مفادات کے تابع ہوچکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی کسی پشتون کے ساتھ روابط رکھتا ہے تو تاجک، ہزارہ اور ازبک قبیلے والے اسے پاکستانیوں کا اپنے ساتھ اعلانِ جنگ سمجھ لیتے ہیں۔ یہی تصور ازبک، تاجک اور ہزارہ والوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

یہ گروہی دشمنیاں افغانستان میں رہنے والوں میں اتنی راسخ ہوچکی ہیں کہ وہ ایک قوم کے طور پر اپنا ردِ عمل کبھی نہیں دیتے۔ اس وجہ سے پاکستان کو ان سے روابط رکھنے میں مشکلات پیش آئیں اور رفتہ رفتہ افغان قوم کے تمام ہی قبائل پاکستان کے خلاف ہو گئے۔

جب پاکستان جہاد کی حمایت کررہا تھا تو لبرل اور بائیں بازو کے افغان پاکستان سے ناراض ہوئے۔ پھر جب طالبان کی حمایت شروع ہوئی تو مجاہدین جو زیادہ تر پشتون تھے، وہ بھی بگڑ گئے اور آخر میں جب نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا تو طالبان بھی پاکستان سے ناراضی کا اظہار کرنے لگے۔

من حیث القوم افغانیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام کا خارجہ پالیسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں اور ہر حکومت کا مؤقف دوسری سے الگ ہوتا ہے۔ عوام کو آپس میں کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اتفاق قائم کرنا ہوگا۔

انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر جب تماشائی میچ ہارنے پر توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو اس کا کیا اثر لیا جاتا ہے؟ افغانستان کی کتنی بدنامی ہوتی ہے؟ لوگ کیا سوچتے ہیں کہ افغانی کیسی قوم ہیں؟ ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ 

Related Posts