ترکی نے افغانستان کو مستحکم کرنے اور مہاجرین کا نیا بہاؤ روکنے کیلئے پاکستان کیساتھ مل کر کام کرنے عزم کیا ہے، صدرمملکت عارف علوی کے دورہ ترکی کے دوران ترک ہم منصب کاکہنا تھا کہ ترکی کو ایران کے راستے افغان مہاجرین کی نئی لہر کا سامنا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خطے میں استحکام کی بحالی کیلئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں گے جس کا آغاز افغانستان سے ہوگا۔ ترک رہنما کا کہنا تھا کہ اس اقدام کیلئے ہم پاکستان کیساتھ اپنا تعاون مزید مضبوط کریں گے۔
پاکستان گزشتہ 40 سال سے زائد عرصہ سے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رہا ہے اور اب حکومت پاکستان گزشتہ دنوں کئی باربرملا افغان مہاجرین کو واپسی کا کہہ چکی ہے لیکن صورتحال جوں کی توں ہے۔
پاکستان میں حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اس وقت 30 لاکھ کے قریب مہاجرین پناہ گزین ہیں جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق پاکستان میں موجود مہاجرین کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
پاکستان نے 1979ء میں سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد لاکھوں افغانیوں نے بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان نے خود وسائل کی کمی کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دی اور انہیں ہر طرح کا سہارا دیا اور ماضی میں یہ بھی دیکھا گیاکہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصربھی پناہ گزینوں کی آڑ میں پاکستان میں داخل ہوئے جس کی وجہ سے ملک میں اسلحہ اور منشیات کے علاوہ دیگر مسائل میں اضافہ ہوا۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں ایک غیر یقینی صورتحال دیکھنے میں آئی اور گزشتہ ماہ سے افغانستان سے لوگوں نے بیرون ممالک محفوظ پناہ گاہوں کی طرف رخ کرلیا تھا جبکہ اب افغانستان میں قومی حکومت کے خاتمےاور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں شہری ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ خانہ جنگی سے جان بچا کر ہجرت کرنے والوں کا رخ پاکستان کی طرف نہیں بلکہ وہ ایران کے راستے ترکی جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
پاکستان آنے والے مہاجرین قیام کی مدت ختم ہونے کے باوجود واپس افغانستان جانے سے انکاری رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو بار بار باامرمجبوری اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے دباؤ پر پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع کرنا پڑی اور اب جبکہ ایک بار پھر افغانستان میں عدم استحکام کی فضاء بن چکی ہے تو خوف کا شکار شہریوں نے انخلاء شروع کردیا ہے اور خدشہ ہے کہ پاکستان پر افغان مہاجرین کی یلغار ہوسکتی ہے۔
مہاجرین کے اِس رجحان کو دیکھتے ہوئے جہاں یورپی ممالک خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اُنہیں آنے والے دنوں میں افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا وہیں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ سامنے آیا ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستان آنے دیا جائے اور پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دے۔
افغانستان سے براستہ ایران ترکی 2 ہزار افغان ہر روز ترکی پہنچ رہے ہیں اور مہاجرت کے اِس رجحان کو دیکھتے ہوئے اِس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد اِس تعداد میں کئی سو گنا اضافہ ہو جائے گا۔
پاکستان معاشی طور غیر مستحکم ملک ہے اور مہاجرین کی آمد کی صورت میں پاکستان کے وسائل پر شدید دباؤ آسکتا ہے، امریکا،ترکی، یورپ اور دیگر ممالک افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کیلئے پاکستان کو مجبور کرنے کے بجائے اپنی سرحدیں کھولیں اور مہاجرین کو پناہ اور وسائل فراہم کریں اور حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بھی طرح مہاجرین کی یلغار سے بچاجاسکے تاکہ پاکستان میں کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے سکے۔