لوٹے گئے قومی اثاثے واپس لائیں گے، افغان ترجمان کی ایم ایم نیوز سے گفتگو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

افغان حکومت نے کہا ہے کہ ہم اپنے لوٹے گئے قومی اثاثوں کو مذاکرات کے ذریعے واپس لانا چاہتے ہیں، دنیا بھر کے کاروباری اداروں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بے خوف و خطر افغانستان میں آکر کاروبار کریں اور امارت اسلامی کی سرپرستی میں 4 دہائیوں بعد افغانستان میں قائم ہونے والے امن و استحکام سے فائدہ اٹھائیں۔

ان خیالات کا اظہار افغان حکومت کے مرکزی نائب ترجمان انعام اللہ سمنگانی نے ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ گزشتہ دن افغان وزارت اطلاعات اور پاکستانی میڈیا کے درمیان پروفیشنل رابطوں کیلئے قائم گروپ کے تحت افغان حکومت کے مرکزی ترجمانوں ذبیح اللہ مجاہد اور انعام اللہ سمنگانی کے ساتھ بالواسطہ سوال و جواب کی نشست رکھی گئی۔ گروپ کے رابطہ کاروں نے پاکستانی میڈیا پرسنز سے تحریری سوالات طلب کیے، جن کے جوابات افغان حکومت کے ترجمانوں سے حاصل کرکے تحریری طور پر پاکستانی صحافیوں کو فراہم کیے گئے۔

اس موقع پر پاکستانی صحافیوں کی جانب سے افغان حکومت کو باضابطہ طور پر ایک جائز حکومت تسلیم کیے جانے کیلئے جاری کوششوں میں ہونے والی اب تک کی پیشرفت، خطے کے ممالک اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے افغان حکومت کی سوچ، اپروچ اور پالیسی، حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان افغان حکومت کی ثالثی میں جاری بات چیت، خواتین کے حقوق، خواتین کی ملازمتوں، لڑکیوں کی تعلیم، افغان معیشت اور نظم و نسق کے قیام سمیت مختلف موضوعات پر سوالات لکھ کر بھیجے گئے، جن کے تحریری جوابات فراہم کیے گئے۔

افغانستان سے 20 سال بعد امریکی انخلا تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ افغان سرزمین سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا یہ عمل اگست 2021 میں اس وقت مکمل ہوا جب افغان طالبان نے سابق افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کو شکست فاش سے دوچار کرکے کابل اپنے قبضے میں لے لیا۔ طالبان کی یہ پیش قدمی دراصل فروری 2020ء میں قطر کے دار الحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدہ کا نتیجہ تھی۔ یہ معاہدہ کروانے میں قطر کی حکومت نے میزبانی کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ فراخدلانہ معاونت فراہم کی تھی۔ جس کو دونوں متحارب فریقوں نے تحسین کی نظر سے دیکھا۔ اگست 2021ء میں افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کے مکمل سقوط اور طالبان کی واپسی کے بعد ایک بار پھر قطر کا کردار سامنے آیا۔

امریکی افواج نے جاتے ہوئے کابل ایئرپورٹ کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ کر دیا تھا۔ قطر نے آگے بڑھ کر کابل ایئرپورٹ کی بحالی اور انفرا اسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے بھرپور تعاون فراہم کیا اور ہنگامی طور پر ایئرپورٹ کی تعمیر نو کر دی۔ طالبان حکومت نے اس موقع پر قطر اور ترکی کے ساتھ کابل ایئر پورٹ سمیت ملک کے تمام ہوائی اڈوں کی بحالی کیلئے باقاعدہ معاہدہ کرنا چاہا۔ اس حوالے سے طویل مذاکرات ہوئے، تاہم اب خبر آئی ہے کہ افغان حکومت قطر اور ترکی کے بجائے عرب امارات کی حکومت کے ساتھ ہوائی اڈوں کی بحالی کیلئے معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔

ایم ایم نیوز نے اس حوالے سے سوال پوچھا کہ کابل ایئرپورٹ کو عالمی معیارات کے مطابق بنانے اور چلانے کیلئے طالبان حکومت کے قطر اور ترکی کے ساتھ طویل مذاکرات ہوئے، ایئرپورٹ کا تعمیراتی اسٹرکچر قطر نے کھڑا کرنے میں کردار بھی ادا کیا، مگر پھر یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے، اب پتا چلا ہے کہ افغان حکومت UAE کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں ایسی کیا پیچیدگیاں ہیں کہ ترکی اور قطر کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرات معاہدے پر منتج نہیں ہو سکے اور افغان حکومت کو یو اے ای کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں افغان حکومت کے نائب ترجمان نے بتایا کہ ہم نے مختلف حوالوں سے ترکی اور قطر کے ساتھ مذاکرات کیے تھے اور ان کی طرف سے اچھا رسپانس بھی آیا، تاہم اب ہم متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، یہ کمپنی افغانستان میں کام کرنے کا اچھا تجربہ رکھتی ہے، اس کے ساتھ کئی امور طے پا گئے ہیں، ہم دنیا بھر کے کاروباری اداروں اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی کمپنیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بے خوف ہو کر افغانستان آئیں اور یہاں کاروبار کریں، افغانستان میں امارت اسلامی کی سرپرستی میں مکمل امن اور استحکام کا ماحول ہے۔ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ہم دنیا بھر کے کاروباری اداروں کی خدمات سے استفادے کے منتظر ہیں۔

ایم ایم نیوز کی جانب سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ سابق افغان رژیم کے اہم ارکان ترکی میں اکٹھے ہو رہے ہیں، کیا افغان حکومت ترکی پر اس سلسلے میں کوئی دباؤ ڈال کر ان کی حکومت مخالف سرگرمیوں پر روک لگانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ کیا اس سلسلے میں ترک حکومت کے ساتھ آپ لوگوں کی کوئی بات چیت ہوئی ہے؟ اس سوال کے جواب میں افغان حکومت کے نائب ترجمان نے بتایا کہ ہمیں ترک حکومت سے اس حوالے سے کوئی شکایت ہے اور نہ ہم اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، البتہ ہم تمام افغان رہنماؤں سے یہ بات ضرور کہیں گے کہ افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی جارحیت تھی، جس کا اب خاتمہ ہو چکا ہے، اب ہم تمام افغان رہنماؤں کو پیشکش کرتے ہیں کہ وہ واپس اپنے ملک آجائیں اور یہاں بیٹھ کر پر امن ماحول میں مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل نکالیں۔

اگست 2021 میں طالبان کی آمد کے موقع پر افغانستان کے کئی ہیلی کاپٹر اور جہاز تاجکستان پہنچائے گئے تھے، اس حوالے سے ایم ایم نیوز کے سوال پر بتایا گیا کہ ہم تاجکستان اور ازبکستان کو بتانا چاہتے ہیں کہ افغانستان کے جتنے اثاثے یہاں سے لے جائے گئے وہ افغان قوم کی ملکیت ہیں، ہم اپنے مالکانہ حقوق کا ہر صورت دفاع کریں گے، تاہم ہم کسی زور زبردستی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہم   اپنے قومی اثاثے واپس لانے میں کامیاب ہوں گے۔

Related Posts