مخربِ اخلاق مواد کا مسئلہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی دور میں پاکستان میں تیز رفتار انٹرنیٹ کو دیوانے کا خواب سمجھا جاتا تھا، لیکن آج کل بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون اور اس کے اندر برق رفتار انٹر نیٹ ہے اور یہ خوف اپنی جگہ موجود ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود مخربِ اخلاق مواد نئی نسل کو خراب کرسکتا ہے۔

جب پاکستان میں انٹرنیٹ لانے کی باتیں ہورہی تھیں تو 2000 سے لے کر 2002 تک وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے اور ہر ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی اثرات و مضمرات ہوتے ہیں۔ یہ من حیث القوم ہمارا فرض ہے کہ ہم مثبت اثرات کی طرف جائیں۔

لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ پاکستانی قوم کا نام گوگل پر مخربِ اخلاق مواد تلاش کرنے والوں میں لیا جانے لگا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں نے آن لائن شاپس کھولیں اور یو ٹیوب چینلز سمیت دیگر ذرائع سے پاکستان کیلئے خطیر زرِ مبادلہ بھی کمایا گیا۔

اس کے باوجود انٹرنیٹ پر مخربِ اخلاق مواد، تصاویر اور ویڈیوز سمیت دیگر اخلاق باختہ چیزوں نے انٹرنیٹ صارفین کا ذہن خراب کیے رکھا تاہم ایک مثبت پیشرفت یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی غیر قانونی مواد کی روک تھام کیلئے ایکشن لے رہی ہے۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر قانونی مواد کے خلاف پی ٹی اے کے ایکشن کی رپورٹ سامنے آئی۔ دستاویز کے مطابق پی ٹی اے نے 11 لاکھ 35 ہزار سے زائد آئی ڈیز کو بلاک کردیا۔

غیر قانونی مواد کی روک تھام کیلئے پی ٹی اے کو مجموعی طور پر 12 لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔ سب سے زیادہ 1 لاکھ 34 ہزار شکایات فیس بک پوسٹس کے خلاف ملیں۔ فیس بک پر 1 لاکھ 12 ہزار سے زائد جعلی آئی ڈیز کو بلاک کردیا گیا۔

اسی طرح ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی ویڈیوز کے خلاف پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پی ٹی اے کو 65 ہزار 122 شکایات موصول ہوئیں جس پر کارروائی کرتے ہوئے 63 ہزار غیر اخلاقی ویڈیوز کو بلاک کردیا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر 63 ہزار شکایات موصول ہوئیں جس میں سے 50 فیصد مواد ہٹا دیا گیا جبکہ 31 ہزار 860 ٹوئٹر آئی ڈیز بلاک کردی گئیں۔ یو ٹیوب نے پی ٹی اے کی درخواست پر 36 ہزار ویڈیوز جبکہ لائیکی نے 900 سے زائد آئی ڈیز کو بلاک کردیا۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پی ٹی اے نے نہ صرف مخربِ اخلاق مواد کے خلاف ایکشن لیا بلکہ پاکستان کے قومی اداروں بالخصوص پاک فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائیوں پر بھی منفی مہم کو ناکام بنایا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا سوشل میڈیا صارف کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم بشمول فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام یا پھر ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے ملکی قوانین کی پاسداری کرے اور کسی بھی قسم کے مخربِ اخلاق یا غیر اخلاقی مواد کو فروغ دینے سے باز رہے۔

ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا ہوگا کہ انٹرنیٹ صرف تفریح کیلئے نہیں ہے اور اگر آپ تفریح کیلئے بھی اسے استعمال کرتے ہیں تو مخربِ اخلاق مواد، ویڈیوز اور تصاویر سے دور رہیں، بصورتِ دیگر پی ٹی اے اور ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے آپ کے خلاف کسی بھی وقت ایکشن لے سکتے ہیں۔ 

 

Related Posts