لڑکی کی شادی کیلئے اسلام میں بلوغت، اسلام آباد ہائیکورٹ کی 18 سال کی شرط، آخر والدین کس کی پیروی کریں ؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لڑکی کی شادی کیلئے اسلام میں بلوغت، اسلام آباد ہائیکورٹ کی 18 سال کی شرط، آخر والدین کس کی پیروی کریں ؟
لڑکی کی شادی کیلئے اسلام میں بلوغت، اسلام آباد ہائیکورٹ کی 18 سال کی شرط، آخر والدین کس کی پیروی کریں ؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لڑکی کی کم عمر میں شادی کا موضوع ہر وقت پاکستان میں زیر بحث رہتا ہے، حال ہی میں 16 سالہ فلک شیر نے بھاگ کر شادی کی، جس کے بعد اس کے والدین نے بیٹی کے اغواء کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں  درج کروایا تھا۔

عدالت نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ 18  سال سے کم عمر کوئی بھی لڑکی شادی نہیں کرسکتی جبکہ لڑکی کے والدین بھی اس کی شادی 18 سال سے پہلے نہیں کراسکتے۔

اس فیصلے کے تحت عدالت نے 16 سالہ فلک کو واپس والدین کے سپرد کرنے کا حکم دیا۔

شادی کیا ہوتی ہے

شادی ایک سنت فریضہ ہے اور ایک ضرورت بھی ہے کیونکہ انسان کے اندر بہت سی ایسی خواہشات ہوتی ہیں اور کچھ ایسے معاشرتی تقاضے ہوتے ہیں جن کیلئے شادی کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک انسان کب تک اکیلا رہ سکتا ہے اس کو زندگی کہ کسی نہ کسی موقع پر ایک چاہنے والے، ساتھ نبھانے والے  اور ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے شادی سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔

شادی کے بارے میں طبی ماہرین کی رائے

  شادی کے حوالے سے طبی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ‘بلوغت کے بعد چونکہ لڑکی میں صرف جسمانی طور پر تبدیلی ہوئی ہے لیکن وہ فی الحال کسی تعلق کو نبھانے کیلئے ابھی بھی کم عمر ہے لہذا اس کی شادی نہیں کریں تو بہتر ہے’۔

شادی کے بارے میں متعدد ڈاکٹرز والدین کو منع کرتے ہیں کہ آپ اپنی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے پہلے نہ کریں جبکہ کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ لڑکی کی شادی 20 سال کے بعد کرنی چاہئے کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ کم عمر کی شادی اور کم عمر میں بچے ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی صحت خطرے میں پڑجاتی ہے اور بچہ بھی اسی وقت صحت مند ہوتا ہے جب اس کی ماں صحت مند ہوتی ہے۔

طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی تقریبا 70 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ کم عمری کی شادی اور شادی کے فوراً بعد بچے پیدا ہونا بھی ہے۔

شادی کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے

شادی کے بارے میں دین اسلام کی رائے بہت مختلف ہے، دین میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جیسے ہی لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچے اُس کی شادی کردینی چاہئے۔

شادی کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ  ‘تم میں سے جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے’۔

ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا ہے کہ ‘جو شخص نفس کے تقاضوں کے باوجود بھی نکاح نہ کرے تو پھر وہ ہمارے طریقے سے خارج ہے’۔

 آخری نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا مطالعہ کریں تو انہوں نے بھی حضرت عائشہ سے 9 سال کی عمر میں نکاح کیا تھا اور 12 سال  کی عمر میں اُن کی رخصتی کروائی تھی۔

شادی کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے ایک فیصلہ جاری کیا کہ بچے کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جاتی ہے جو 18 سال سے کم عمر ہو۔

ایسے بچے کو والدین، سرپرست یا ریاست کی طرف سے خیال رکھنے کے لیے مقررہ کردہ شخص کی جانب سے دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچے کے ساتھ شادی کے معاہدے کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

مزید برآں جسٹس بابر ستار نے اپنے تفصیلی فیصلے میں مزید لکھا کہ ’محض جسمانی بلوغت کی کوئی بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل نہیں سمجھی جاتی جبکہ لڑکی کے والدین بھی اس کی شادی 18 سال سے پہلے نہیں کراسکتے۔

انہوں نے کہا کہ حیاتیاتی طور پر بلوغت کی عمر 18 سال ہے، محض جسمانی تبدیلیوں پر 18 سال سے پہلے قانونی طور پر بلوغت نہیں ہوتی۔ 

والدین کی پریشانی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس بیان سے ایسے والدین کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے جو کہ اپنی  لڑکیوں کی شادی 18سال سے پہلے کرنے کا سوچ رہے تھے کیونکہ عدالت کی طرف سے اس قانون نے تمام والدین کو بھی پابند کردیا ہے کہ وہ 18 سال پہلے لڑکی کی شادی نہیں کرسکتے جبکہ اسلام اور مولوی حضرات اس بات پرزور دیتے ہیں کہ بلوغت کے فوراً بعد لڑکی کی شادی کردینی چاہئے۔

Related Posts