پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تاریخی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز تیزی سے اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے، آج تیسرے ٹیسٹ کا آخری اور فیصلہ کن دن ہے۔ چوتھے روزٹیسٹ میچ کے آخری روز پاکستان کو میچ جیتنے کے لئے 278 رنز اور مہمان ٹیم کو 10 وکٹ درکار ہیں۔
مہمان ٹیم کے 351 رنز ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی جانب سے پر اعتماد انداز میں بیٹنگ کا آغاز کیا گیا، چوتھے روز کے اختتام پر پاکستان نے بغیر کسی نقصان کے 73 رنز بنالئے ہیں، اوپنر عبداللہ شفیق 27 اور امام الحق 42 رنز کے ساتھ وکٹ پر موجود ہیں۔اوپننگ بلے باز امام الحق اور عبداللہ شفیق 27 اوورز میں وکٹ بچا کر 73 رنز جوڑ چکے ہیں اور آج کے روز پاکستان کو فتح کیلئے 278 رنز درکار ہیں۔
اس سیریز کے دوران جو چیز سب سے زیادہ مایوس کن رہی وہ وکٹ تھی ۔ راولپنڈی اور کراچی کی وکٹوں نے شائقین کو بہت مایوس کیا جبکہ لاہور کی وکٹ نے بھی کھلاڑیوں کو زیادہ مدد نہیں کی ۔ یہاں ریورس سوئنگ کے ساتھ کم اچھال اور اچانک گیند تیز نکلتی ہے۔
لاہور کے میدان میں چوتھی اننگز میں اب تک کوئی بھی ٹیم 110 اوورز سے زیادہ کھیلنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور یہاں چوتھی اننگ میں ہدف کا مجموعہ 208 رنز تک رہا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کیوی کپتان پیٹ کمنز نے چائے کے فوراً بعد آسٹریلیا کی دوسری اننگز 3 وکٹوں پر 227 رنز پر ختم کر دی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دن کے باقی اوورز میں پاکستان کے بلے بازوں کو جلدی آؤٹ کیا جاسکے۔
یہاں شائد پیٹ کمنز کے اندازے غلط ثابت ہوئے کیونکہ پاکستانی اوپنرز نے 27 اوورز کھیل کر انتہائی محتاط انداز میں بیٹنگ کے دوران اپنی وکٹس محفوظ رکھیں۔ کیوی کپتان کو شائد یاد نہیں کہ پاکستانی بلے بازوں نے کراچی ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں 506 رنز ک تعاقب میں مشکلات کے باوجود بھرپور مقابلہ کیا تھا اور 171 اوورز میں 7 وکٹوں پر 443 رنز بنائے تھے۔
کون اندازہ لگا سکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم پہلی اننگز میں 150 سے کم رنز بنانے کے بعد دو دن تک بیٹنگ کرے گی اور تقریباً 450 رنز بنائے گی لیکن بدقسمتی سے پاکستان ٹیم جیت کے بجائے ڈراکیلئے کھیل رہی تھی اور اگر جیت کی حکمت عملی ہوتی تو شائد پاکستان کراچی ٹیسٹ میں فتح کے قریب پہنچ سکتا تھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں جارحانہ انداز میں کھیلنا آسان نہیں ہوتالیکن کم از کم ٹیم کو جیتنے کا انداز اپنانا چاہیے۔
تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تین ٹیسٹ اور اس کے بعد تین ون ڈے اور واحد ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ شروع ہونے والی پاکستان آسٹریلیا سیریز کی تیاری مکمل نہیں تھی۔
کیوی ٹیم 2 دہائیوں کے بعد پاک سرزمین پر آئی ہے لیکن یہاں بے جان وکٹوں نے ہار جیت کا مزہ کرکراہ کردیا ہے۔
ہوم ایڈوانٹیج ایک فن ہے جس کاکرکٹ کی بڑی ٹیمیں اپنے حق میں بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ نے ہمیشہ ہوم سیریز میں باؤنس، سوئنگ اور مشکل وکٹوں پر مہمانوں کو شکست دی جبکہ ایشیائی ٹیمیں اپنے مخالفین کو پھنسانے کیلئے اسپن وکٹیں بناتی ہیں۔
ایشین ٹیموں کو دیگر کے مقابلے میں اسپن باؤلنگ میں سبقت حاصل ہے اور بڑی ٹیموں کو اسپن کے جال میں پھنسانا ایک اچھا اقدام ہوسکتا ہے لیکن یہاں شائد پاکستان بھول گیا ہے کہ ہوم ایڈوانٹیج کو اپنے حقیقی فائدے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔
آخری ٹیسٹ میچ میں امام الحق اور عبداللہ شفیق نے پاکستان کے مشکل تعاقب میں پراعتماد آغاز کیاہے، پاکستان کو آج آخری دن کم از کم 90 اوورز میں 278 رنز کی ضرورت ہے۔ ہوم ٹیم کو آسانی سے ہدف کا تعاقب کرنا چاہیے کیونکہ اس کی ابھی 10 وکٹیں باقی ہیں۔