عالمی ادارہ صحت اور دنیا بھر کے ماہرین یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ کورونا وائرس کب ختم ہوگا اور کب زندگی معمول پر آئے گی جبکہ ڈبلیو ایچ او نے متنبہ کیا ہے کہ شائد کورونا وائرس کبھی ختم نہیں ہوگا۔
غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ ویکسین یا موثر علاج کا انتظار کریں لیکن یہاں تک کہ اگر کوئی ویکسین مل جاتی ہے تو بھی اس وائرس پر قابو پانے کے لئے بڑے پیمانے پر مشقت کی ضرورت ہوگی۔ کورونا وائرس ہمارے معاشرے میں موجود رہ سکتا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
دنیا میں کئی ایسے وائرس ہیں جن کا کوئی علاج نہیں ہے اور ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ایچ آئی وی / ایڈز کو 1980 کے بعد سے ایک عالمی وبائی مرض بھی سمجھا جاتا ہے جس نے پچھلے دو سالوں میں 38 ملین افراد کو متاثر کیا ہے۔ خسرہ اور دیگر بہت سی بیماریوں کی ویکسین موجود ہیں لیکن ان کو بیماریوں کوبھی ختم نہیں کیا جاسکا، واحد راستہ کورونا وائرس پر قابو رکھنا ہے جس کے لئے بے پناہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس وسیع پیمانے پر پریشانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے ، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں ذہنی صحت کی دیکھ بھال میں سہولیات کا فقدان ہے۔ حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران ذہنی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
امریکامیں ادویات بنانے والے ایک معروف ماہر نے خبردار کیا ہے کہ ویکسین کنٹرول پروگرامز کی کمی کی وجہ سے ہماراملک بہت بڑا خطرہ مول لے رہا ہے۔یہ تمام بیانات ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب پاکستان سمیت متعدد ممالک نے آہستہ آہستہ لاک ڈاؤنمیں آسانی پیدا کرکے اپنی معیشت کو بحال کرناشروع کردیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی طرح کے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا ،انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کو معاشرے پر اس مرض کے وسیع پیمانے پر اثرات پر غور کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی صورتحال دوسرے ممالک سے مختلف ہے کیونکہ ہلاکتوں کی تعداد تخمینے سے بھی کم ہے تاہم آنے والے دنوں میں معاملات میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ انفیکشن کی دوسری لہر قریب آرہی ہے جس سے محدود طبی وسائل پر بوجھ پڑے گا۔
وزیر اعظم کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد لاک ڈاؤن سے بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں 25 فیصد سے زیادہ یومیہ اجرت والے مزدور ہیں جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنی معمول کی زندگیوں کو بحال کریں۔
اس کورونا وائرس نے عالمی رہنماؤں کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ کورونا وائرس پر قابو پائے بغیر پابندیوں کو کم کرنے کا کوئی موثر طریقہ کار نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی ذہنیت کو بدلنا ہوگا اور اس وائرس کے ساتھ جینا سیکھنا چاہئے اور بدترین صورتحال کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔