درس نظامی کا ایک سنگین سقم

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

US and Russia: Breaking Traditions

ہمارے دینی تعلیم کے نظام میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ ہم “تاریخ علم” پڑھانا تو دور اس بات کا ہی کوئی تصور نہیں رکھتے کہ اس نام کی بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے۔

ہر علم کی ایک تاریخ بھی ہوا کرتی ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ علم اپنے آغاز سے حالیہ دور تک کن مراحل اور کن تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ اگر ہم نے اس کا اہتمام کیا ہوتا تو ہم سے قرآن مجید کے نظر انداز ہونے کا سنگین جرم کبھی سرزد نہ ہوتا۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اٹھارویں صدی تک یہ بدبختی رہی تھی کہ اہل علم کے دو طبقات تھے۔ ایک طبقے کا ماننا تھا کہ حدیث کو قیاس فقہی پر ترجیح حاصل ہے۔

دوسرے طبقے کا کہنا تھا کہ قیاس فقہی مقدم ہے۔ اور آخر میں آکر یہ دوطبقات یوں ایک ہی طبقہ بن گئے کہ سب اس بات پر اتفاق کرگئے کہ قیاس فقہی کو حدیث پر ترجیح حاصل ہے۔

اس ماحول میں جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی آئے تو وہ یوں مجدد فی العلم ثابت ہوئے کہ انہوں نے اس جہل کا خاتمہ کردیا۔ اور حدیث کی قیاس فقہی پر فوقیت بحال کرادی۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں “سند حدیث” رسول اللہ ﷺ تک صرف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ذریعے پہنچتی ہے۔ شاہ صاحب کے دور سے پیچھے ہماری سند حدیث برصغیر سے نکل کر حجاز کی جانب جاتی نظر نہیں آتی۔

اب شاہ صاحب کو چونکہ یہ چیلنج درپیش تھا کہ برصغیر میں صدیوں تک حدیث نظر انداز رہی تھی۔ چنانچہ جب وہ اس کی یہ حیثیت بحال کرنے کے مشن پر لگے تو اس کی ایک اہم صورت یہ بن گئی کہ انہوں نے “تدریس حدیث” کو خصوصی توجہ دے کر اسے خود پڑھانا شروع کردیا۔

یہ عین وہ دور تھا جب انگریز برصغیر میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا یوں آنے والے ماہ و سال علماء کے لئے اپنے وطن کی آزادی برقرار رکھنے کے حوالے سے مشکل ثابت ہوئے۔ علماء کی علمی یکسوئی بری طرح متاثر ہوئی، ان کے تعلیمی ادارے تک تتربتر ہونے لگے، اور تحریک آزادی کو تعلیم پر فوقیت حاصل ہونے لگی۔

انتشار کے اس دور میں آگے چل کر جب 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کا سانحہ بھی رونما ہوگیا تو کچھ لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا جائے ؟ چنانچہ انہوں نے بجا طور پر مسئلے کا درست حل یہی سمجھا کہ ایک دارالعلوم قائم کرکے دینی تعلیم کے نظام کو منظم انداز سے از سر نو بحال کیا جائے اور اس تعلیمی ادارے سے جو علماء نکلیں وہی تحریک آزادی کو بھی از سر نو منظم کریں۔

یوں دارلعلوم دیوبند قائم ہوا اور اور ہم سب جانتے ہیں کہ شیخ الہند اور ان کے شاگرد صرف علمی خدمات ہی نہیں بلکہ تحریکی خدمات کی نسبت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یعنی وہ ادارہ جس ایجنڈے کے تحت بنا تھا اسے پورا کرتا بھی نطر آیا۔

مگر چونکہ یہ سب کسی پر امن و پر سکون دور میں نہ ہو رہا تھا بلکہ حالات ہنگامی نوعیت کے تھے سو ایک مہلک غلطی بھی سرزد ہوگئی۔ وہ غلطی یہ تھی کہ ان حضرات نے رہنمائی کے لئے پلٹ کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی جانب دیکھا تو انہیں شاہ صاحب علم حدیث پر خصوصی توجہ مرکوز کئے نظر آئے۔

چنانچہ دیوبند کے ان بزرگوں نے بھی حدیث کو ترجیح دے کر “دورہ حدیث” کو ہی نصاب کا تاج بنا دیا۔ یہ اس بات کا اندازہ نہ لگا سکے کہ شاہ ولی اللہ نے تو حدیث کو بہت غیر معمولی توجہ اس لئے دی تھی کہ برصغیر میں حدیث صدیوں سے نظر انداز چلی آئی تھی۔

جب کوئی چیز نظر انداز ہو اور اس کی اہمیت منوانی ہو تو اس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ اسے خصوصی توجہ دیدی جائے۔ لیکن جب دیوبند قائم ہو رہا تھا تب حدیث کی اہمیت منوانے والا چیلنج درپیش نہ تھا۔ شاہ صاحب کا دور ایک صدی پیچھے رہ گیا تھا۔ اب قیاس فقہی پر حدیث کی ترجیح مسلم تھی۔

رعایت اللہ فاروقی کے دیگر کالم پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ہم بانیان دیوبند کی اس غلطی کو غیر ارادی سمجھتے ہیں۔ ہنگامی حالات میں چیزوں کا پوری گہرائی سے ادراک نہیں ہو پاتا۔ ایسے حالات میں غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں۔ مگر ظلم یہ ہوگیا کہ جب برصغیر آزاد ہوگیا تو تب بھی کسی کو یہ غلطی ٹھیک کرنے کا احساس نہ ہو سکا۔

یوں اس لمحہ موجود میں بھی ہمارے نصاب میں قرآن مجید نظر انداز ہے۔ دورہ حدیث تک پہنچتے ہی ہم صرف و نحو کی طرح قرآن کو بھی نصاب سے باہر کردیتے ہیں۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ہمارے ہاں سب سے “محترم” استاد شیخ الحدیث ہوتا ہے۔

شیخ القرآن ہمارے پاکستانی علاقوں میں چار ہی آئے۔ اور ان کا بھی درس نظامی کے سسٹم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یعنی وہ اس لئے وجود نہ رکھتے تھے کہ درس نظامی میں ان کی بھی جگہ رکھی گئی تھی۔ بلکہ قرآن مجید پر ان کی توجہ ان کا انفرادی عمل تھا۔

یہ گمراہ کن غلطی اب تک کیوں برقرار ہے ؟ کیونکہ ہم تاریخ علم پڑھتے ہیں نہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ اس سے بھی لگا لیجئے کہ ہمارے کوہستانی علماء آج بھی فلسفے اور منطق کو خصوصی اہمیت دیئے بیٹھے ہیں۔

مگر جانتے ہیں وہ پڑھا کیا رہے ہیں ؟ وہ یونانی فلسفہ پڑھا رہے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ یونانی فلسفے کو ایکسپائر ہوئے صدیاں گزر گئیں، آج فلسفہ اپنے چوتھے، بعض کے مطابق پانچویں دور میں کھڑا ہے۔

ہماری دست بستہ التجاء ہے کہ علوم اسلامیہ کی درجہ بندی میں قرآن مجید کی اولیت بحال کی جائے۔ ورنہ خدا کو جواب دینا پڑے گا کہ اس کی کتاب کو اس بے رحمی سے کیوں نظر انداز کیا تھا !

Related Posts