مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب سوویت یونین موجود تھا تو دنیا دو بلاکس میں منقسم تھی اور دنیا میں بیک وقت کئی نظام چل رہے تھے۔ کچھ ممالک ایسے تھے جو باقاعدہ طور پر اشتراکی نظام کے تحت چل رہے تھے جبکہ کچھ ایسے تھے جو سیاسی، معاشی اور دفاعی لحاظ سے تو اشتراکی بلاک کا حصہ تھے لیکن ان کا اپنا نظام اشتراکی نہیں تھا۔

ایسے ممالک کی مثال ایران کی صورت دیکھی جا سکتی ہے جو انقلاب کے بعد اشتراکی بلاک کا حصہ رہا لیکن اس کا اپنا نظام اشتراکی نہ تھا۔ دوسری طرف کیپٹل بلاک میں بھی یہی صورتحال رہی کہ کچھ ممالک مکمل طور پر کیپٹلسٹ رہے جبکہ کچھ ایسے تھے جن کی سیاسی، معاشی اور دفاعی وابستگی تو امریکہ سے تھی لیکن ان کا نظام مختلف تھا۔ اس کی مثال پاکستان ہے جس کا آئین ملک میں اسلامی نظام کی بات کرتا ہے۔

رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں:

فارن فنڈنگ کیس اور یکساں مواقع

کپتان فین کلب

سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کی شامت آگئی اور امریکہ ڈنڈا لے کر ان کے پیچھے پڑ گیا کہ آپ اپنا نظام چلانے کا حق نہیں رکھتے۔ آپ کو کیپٹلزم مکمل طور پر اختیار کرکے ملک کو جدید جمہوری تقاضوں کے تحت چلانا ہوگا۔ اور یہ تقاضے سیکولرزم کے تحت لبرل معاشرت کے مطالبات کے ساتھ سامنے لائے گئے۔ یہ غلامی کی سب سے بدتر شکل ہے جو فوجی قبضے کے بجائے یو این اور مالیاتی اداروں کی مدد سے ممالک پر مسلط کی جاتی ہے اور جس سے شہریوں کو یہ احساس تک نہیں رہتا کہ وہ غلامی کی ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس کے ضابطے ان کے منتخب کردہ نہیں بلکہ ان پر مسلط کردہ ہیں۔ اس مقصد کے لئے این جی او مافیا کے ذریعے “پرسپشن منیجمنٹ” پروگرام شروع کئے گئے، جس میں بھاری فنڈنگ کرکے ان ممالک کے اندر سے ہی سیکولرزم اور لبرلزم کے حق میں آوازیں بلند کروائی جانے لگیں۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں لبرلزم کے حق میں پروپیگنڈہ تب زور پکڑتا ہے جب امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی حکومت میں ہو۔ ریپبلکن پارٹی کے دور میں سارا زور مذہبی ایشوز پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ میں باراک اوباما کی صورت ڈیموکریٹس برسر اقتدار آئے تو پرسیپشن منیجمنٹ کا فنڈ کھانے والوں کو اہداف کے حصول کے لئے دو رخ پر کام کرنے کی ہدایات دی گئیں۔

پہلا رخ یہ کہ اسلامی تاریخ کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے اس پر نوجوان نسل کو شرمسار کیا جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ ان کی تاریخ بہت ہی شرمناک ہے۔ اس مقصد کے لئے اسلامی تاریخ کے معروف حکمرانوں کے کردار کے منفی پہلوؤں کو خوب اچھالا جائے اور غزالی سے لے کر اقبال تک ہر مسلم مفکر کو متنازع بنایا جائے۔ آپ اندازہ لگایئے کہ اس حوالے سے ان کا پروپیگنڈہ اس حد تک مغرب سے ماخوذ ہے کہ جب مسلم حکمرانوں کے عیوب گنوائے جاتے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی تعریف کردی جاتی ہے کہ وہ تو بہت زبردست آدمی تھا۔ جانتے ہیں یہ تعریف کیوں کی جاتی ہے ؟ اس لئے کہ خود مغرب کی پچھلی آٹھ سو سال کی تاریخ ان کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے اور یہ تعریف صرف اس ایک واقعے کے سبب ہے کہ جب صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا تو وہاں موجود بوڑھے سے لے کر بچے تک تمام کے تمام مسلمانوں کو ذبح کردیا تھا اور کسی ایک بھی مسلمان کو زندہ نہ چھوڑا گیا تھا۔ اس ہولناک پس منظر میں جب 80 سال بعد صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا تو صلیبیوں کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ ایوبی انہیں بھی اسی طرح ذبح کرکے انتقام لے گا لیکن ایوبی نے اعلان کیا کہ نہ کسی غیرمسلم پر آنچ آنے دی جائے گی اور نہ ہی ان کا حق ملکیت اور کار و بار چھینا جائے گا۔ بیت المقدس کے ہر غیر مسلم شہری کے بھی وہی حقوق ہونگے جو مسلمانوں کے ہیں۔ بس ان غیر ملکیوں کو یہاں سے نکلنا ہوگا جو یورپ سے آ کر یہاں لڑ رہے تھے۔ اور پھر حسب وعدہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہ وہ واقعہ ہے جس پر عیسائیت آج بھی صلاح الدین ایوبی کی تعریفوں کے پل باندھتی نہیں تھکتی اور یہ تعریفیں بی بی سی تک اپنی ڈاکومنٹری میں کر چکا ہے ورنہ جو “عیوب” گنوا کر لبرلز دیگر مسلم سلاطین پر کیچڑ اچھالتے ہیں وہ تمام کے تمام خود صلاح الدین ایوبی میں بھی پائے جاتے ہیں۔

پروپیگنڈے کے لئے دیسی لبرلز کو دوسرا رخ یہ دیا گیا کہ لبرلزم کے فوائد گنوائے جائیں۔ “فوائد” کے باب میں سب سے زیادہ پروپیگنڈہ “آزادی” کا کیا جاتا ہے۔ اور ان کے ہاں آزادی کے معانی یہ ہیں کہ بولنے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان اپنے بول کو بھونک میں بھی بدل سکے۔ اور وہ کسی پر بھی بھونک سکے۔ اس حوالے سے اسی دور میں توہین رسالت کے پے درپے واقعات بھونک نہیں تو کیا ہیں؟ دیکھنے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان دوسرے کی بہن اور بیٹی کو نظر بھر کر صرف دیکھ ہی نہ سکے بلکہ آنکھ مار کر پٹا بھی سکے اور باپ کو اس پر اعتراض کا حق نہ ہو۔ پینے کی اتنی آزادی ہو کہ انسان وہ بھی بے روک ٹوک پی سکے جس کے پینے سے منہ اور خیالات دونوں سے بدبو آنے لگتی ہے، مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رات آٹھ بجے کے بعد والا فیس بک کمنٹ ستارہ امتیاز کو بھی رسوا کرکے رکھ دیتا ہے۔ جنسیت کی اتنی آزادی ہو کہ باپ بیٹی سے یہ پوچھنے کا حق نہ رکھ سکے کہ “بیٹی رات تین بجے کہاں سے آ رہی ہو ؟” وہ بس دروازہ کھول کر صرف اتنا کہہ سکے “جاؤ بیٹا ! نہا لو !” آپ دیسی لبرلز رائٹرز کا تمام کا تمام پروپیگنڈہ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ وہ غربت سے آزادی، بھوک سے آزادی، بیماریوں سے آزادی، جہالت سے آزادی، مہنگائی سے آزادی، عدم مساوات سے آزادی، سرمایہ دار سے آزادی اور خود کشیوں سے آزادی کی بات ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ تمام کی تمام آزادیاں کیپٹلزم دیتا نہیں بلکہ چھینتا ہے ۔

بھاڑے کے یہ بیانیے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میں ختم کروا دیئےکیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس نیشنلسٹ ایجنڈے پر ہے جس کا ہدف ہی لبرلزم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی لبرلز صاف کہتے ہیں نیشنلسٹ ہمارے دشمن ہیں۔ ان سے دشمنوں کا سا ہی سلوک کرنا ہوگا۔ اور یہ کشمکش اب اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عالمی ماہرین امریکہ میں خانہ جنگی کا امکان دیکھ رہے ہیں۔ ایف بی آئی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا والے گھر پر جو چھاپہ مارا ہے اس کے بعد سے میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف بی آئی کے دفاتر کے آس پاس مسلح لوگ دیکھے جا رہے ہیں اور امریکی میڈیا خبردار کر رہا ہے کہ ایف بی آئی اہلکاروں پر حملوں کا خطرہ ہے۔ گویا جو امریکہ باقی دنیا پر لبرلزم مسلط کرنے کے چکر میں رہتا تھا اس کے اپنے ہی گھر میں لبرلزم کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے قابل رحم حالت ہمارے ان بھاڑے کے ٹٹوؤں کی ہے جو بائیڈن کے برسر اقتدار آتے ہی پر یقین تھے کہ ٹرمپ نے پاکستان میں این جی او مافیا کے جو پروجیکٹ بند کر دیئے تھے وہ پھر سے کھل جائیں گے۔ مگر جب لبرلزم اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ ہو تو اس کے فروغ کے لئے باہر فنڈز کیسے دیئے جاسکتے ہیں ؟ چنانچہ اس بار 14 اگست یوں گزرا کہ کسی نے نہ تو یہ بحث چھیڑی کہ قومی ترانہ فارسی میں کیوں ہے ؟ نہ کسی نے یہ انکشاف کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کا اصل قومی ترانہ تو جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا۔ یہ خاموشی کیوں رہی ؟ یہ اس لئے رہی کہ دیسی لبرلز کی لبرلزم سے وابستگی فکری نہیں بلکہ بریڈ اینڈ بٹر کی ہے۔ اگر یہ فکری معاملہ ہوتا تو فاقے میں بھی موجود ہوتا۔ مگر چونکہ یہ ان کے لئے محض بھاڑے کا پروجیکٹ ہے سو اس بار یہ اس لئے خاموش رہے کہ بھاڑا بند تھا۔ یہ انتہائی پروفیشنل ہیں، بھاڑے کے بغیر کام نہیں کرتے !

Related Posts