ایک ایسے وقت جب سفاک صہیونی ریاست مکمل طور پر ننگی ہوکر غزہ میں بدترین فلسطینی نسل کشی پر اتر آئی ہے، اسرائیلی اخبار ”ہیوم“ نے انکشاف کیا ہے کہ ایک پاکستانی وفد نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے ہفتے پاکستانی صحافیوں اور محققین کے ایک وفد نے تل ابیب کا خفیہ دورہ کیا، حالانکہ ان کا ملک اسرائیل کے خلاف سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے ممالک میں شامل ہے اور پاکستانی پاسپورٹ میں یہ واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ “یہ پاسپورٹ تمام ممالک میں قابل قبول ہے سوائے اسرائیل کے۔”
الجزیرہ نے اسرائیلی اخبار “يسرائيل ہيوم” کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ دورہ اسرائیلی تنظیم “شراکت” نے منظم کیا تھا، جو اسرائیل اور ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہے اور اس کا مقصد وفد کو “اسرائیل اور یہودیوں کی تاریخ” سکھانا تھا۔ اخبار نے یہ بھی بتایا کہ وفد کی حفاظت کے لیے کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں، جن میں اس کے ارکان کے پاسپورٹس پر مہر نہ لگانے اور دورے کی خبریں وفد کی واپسی کے بعد تک مؤخر کرنے کا فیصلہ شامل تھا تاکہ سنگین نتائج سے بچا جا سکے۔
وفد کے دس ارکان، جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، نے اہم مقامات کا دورہ کیا، جیسے کہ یاد فاشیم، کنیست، مسجد اقصیٰ، دیوار براق، تل ابیب اور سدروت کے علاقے۔ علاوہ ازیں انہیں طوفان الاقصیٰ کے دوران “نوفا” فیسٹیول پر ہونے والے حملے کی جگہ کا بھی دورہ کرایا گیا۔ ان ارکان میں سے ایک صحافی قیصر عباس نے اپنی شناخت ظاہر کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور یسرائیل ہیوم کو بتایا کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ اس سے پاکستانی عوام کا غصہ بڑھ سکتا ہے۔ قیصر عباس نے اس بات کا ذکر کیا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل ممکن ہے، لیکن اس کا حل صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی ہوسکتا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ فلسطین وہ واحد رکاوٹ ہے جو پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے۔
قیصر کے ساتھی شبیر خان نے بھی اپنی شناخت ظاہر کی اور کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان مستقبل میں تعلقات کو معمول پر لانا ممکن ہے، تاہم ہمیں “انتہا پسند اسلامی گروپوں” کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ عمل 10 سے 20 سال کے اندر مکمل ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی رسمی معاہدہ طے پائے۔
اخبار “یسرائیل ہیوم” نے اس دورے کو ایک علامتی موڑ قرار دیا اور کہا کہ یہ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے ممکنہ تعلقات کے مستقبل کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مزید پیش رفت کرتا رہا۔ اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے، “شراکت” تنظیم کے بانی دان ففرمین نے اخبار کو بتایا: “ہم پاکستان کے ایک اور وفد کو اسرائیل میں خوش آمدید کہنے کے لیے پُرجوش ہیں، جو ہمارے پروگرام کے تحت سامی دشمنی اور ہولوکاسٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرے گا۔ یہ اقدام ہمارے وسیع تر ایجنڈے میں معاون ثابت ہوگا، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب و اسلامی دنیا کے درمیان امن کو فروغ دینا ہے۔”
“شراکت” تنظیم کے شریک بانی، اميت ديری نے اس بات پر زور دیا کہ “شراکت” کی بنیاد ابراہام معاہدوں کے وژن سے رکھی گئی تھی اور اس کے بعد سے ہم نے علاقائی مکالمے کو فروغ دیا ہے۔ ہم نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان امن اور تعلقات پر مفید بات چیت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور وفود کے تبادلے کے ذریعے اس بات چیت کو آگے بڑھایا ہے۔” ديری نے یہ بھی بتایا کہ “ہم نے اسرائیلی نقطہ نظر کو سمجھنے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مشاہدہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ہم نے پاکستان کے وفود کو کئی ممالک میں مدعو کیا، جن میں پولینڈ اور جرمنی شامل ہیں، تاکہ وہ ہولوکاسٹ کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور سامی دشمنی کے بارے میں آگاہی بڑھائیں۔”