پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما اور شوگر انڈسٹری کے تاجر جہانگیر ترین نے استحکام پاکستان کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے۔
نئی پارٹی کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کیونکہ اس پارٹی میں 100 سے زائد سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شامل ہو گئے جو پی ٹی آئی سے منحرف ہو چکے ہیں۔
جہانگیر خان ترین جو پہلے عمران خان کے قریبی مشیر اور پی ٹی آئی کے اہم عہدیدار تھے، کو پی ٹی آئی کے دور میں قوم کو ہلا دینے والے شوگر سکینڈل میں جرائم کے الزام کے بعد پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ ان پر چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سبسڈی حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
جواباً جہانگیر خان ترین نے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ “سیاسی جادوگرنی کا نشانہ” بن گئے تھے۔ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے مختلف قانون سازوں سے حمایت حاصل کر رہے ہیں جنہوں نے 9 مئی کے بعد پارٹی چھوڑ دی تھی۔
سابق پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے دیگرسیاسی جماعتوں بشمول پی پی پی اور ن لیگ سے بھی رابطہ کیا ہے، تاکہ عمران خان کی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ان کی نئی پارٹی قوم کے استحکام اور شہریوں کی بھلائی دونوں کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی۔
جہانگیر ترین کی نئی پارٹی میں شامل ہونے والے چند اہم سیاستدانوں میں سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل، سابق وفاقی وزیر علی حیدر زیدی، عامر کیانی، سابق معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان، سابق صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان اور مراد راس شامل ہیں۔
فاٹا کے سابق سینیٹر جی جی جمال اور تحریکِ انصاف کے ہاشم ڈوگر گروپ کے کچھ اراکین بھی جہانگیر ترین کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں جن میں راجہ یاور کمال، مامون تارڑ اور رائے اسلم شامل ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ جہانگیر ترین کی نئی پارٹی آئندہ عام انتخابات میں نئے جھنڈے گاڑے گی ، تاہم انتخابات میں اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ جہانگیر ترین کی پارٹی کا پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثر پڑے گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا جہانگیر ترین کی بنائی ہوئی یہ نئی پارٹی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا برسہا برس سے عوام پر طاری سحر توڑنے میں کامیاب ہوسکے گی اور کیا اس کے رہنما رواں برس قانون ساز اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنا سکیں گے؟