نورمقدم کا قتل ناحق

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 عید سے ایک روز قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد زلزلے سے نہیں بلکہ ایک قوی الجثہ نظر آنے والے شخص کے ہاتھوں ایک جیتی جاگتی نوجوان لڑکی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے لرز اٹھا جسے بدترین بربریت کے باعث وحشیانہ جرم قرار دیا جارہا ہے۔

واقعے کی لرزہ خیزی کچھ ایسی ہی تھی جس سے ہمیں عراق میں داعش کےجنگجوؤں کے ہاتھوں سر قلم کے ذریعے قتلِ عام کی بد ترین بربریت یاد آگئی۔

سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ شاید نور مقدم پہلے ہی چھرا گھونپنے سے جاں بحق ہوچکی تھی جس کے بعد اذیت پسند شخص نے اس کا سر قلم کرکے ثابت کیا کہ کسی وحشی کو معصوم سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہ دل دہلا دینے والا جرم اسلام آباد میں اسی روڈ پر پیش آیا جہاں کبھی صدام دور میں عراقی سفارت خانہ ہوا کرتا تھا، ایسا نہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق ہے لیکن بس ہمیں یہ بات یاد آگئی۔

طریقۂ واردات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احمقانہ حد تک سفاک نظر آنے والا قتل تھا۔ اطلاعات کے مطابق نور مقدم نے قاتل سے التجا کی کہ کشیدہ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے آخری بار غور کرے۔ قاتل اور مقتولہ کا رشتہ شروع ہی سے مکمل طور پر یکطرفہ ہونے کے باعث اپنے ناگزیر انجام کی طرف گھسیٹا گیا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ نور مقدم ریشم میں لپٹے اس درندے سے دوستی کر بیٹھی اور بالآخر اس شخص میں چھپے عفریت کو دریافت کرلینے کے باوجود اس سے دور نہ ہوسکی۔ مشرقیت کا محبت کا تصور ہی جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ جس سے تعلق ہو وہ شخص چاہے بے وفا ہو، اخلاقی و جسمانی طور پر بے راہرو ی کا شکار ہو یا پھر سفاک، اسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔

مبینہ طور پر اس شخص پر برطانیہ میں بھی عصمت دری کا مقدمہ درج ہوا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قاتل میں اور بھی اخلاقی خامیاں ہوسکتی تھیں جو اس نے سفاکانہ مہارت سے پروان چڑھائیں  اور اپنے چہرے کے پیچھے انہیں چھپا لیا۔

دولت، مقبولیت اور اثر ورسوخ عام طور پر دیکھنے والوں کو اپنی چکاچوند میں جکڑ لیتے ہیں۔ نور مقدم سابق سفیر کی بیٹی ضرور تھی لیکن وہ اتنی زیادہ امیر نہیں تھی۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ قتل سے کچھ روز قاتل اپنے دوستوں سے اپنے تحفظ سے متعلق مشاورت کرتا رہا کہ اگر وہ کسی کو قتل کردے تو کیا امریکی شہریت پاکستانی قانون سے تحفظ میں مددگار ثابت ہوگی؟ ۔

سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تفتیش کاروں کو تحقیقات کے مختلف مراحل میں ظاہر جعفر کے والدین، خونی رشتوں، دوستوں، گارڈز اور نوکروں کے بھی جرم میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے۔ انہوں نے نور مقدم کی چیخ پکار اور مدد کیلئے آوازیں تو ضرور سنی لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی کو بچانے کیلئے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے مداخلت کی کوشش کی۔

حال ہی میں ایک سی سی ٹی وی کلپ منظر عام پر آیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ نور مقدم نے اپنی جان بچانے کیلئے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ گارڈ نے اسے مین گیٹ سے باہر نکلنے سے روک دیا اور قتل اس کے بعد ہوا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محافظوں اور نوکروں کیلئے یہ مناظر معمول کا حصہ بن چکے تھے۔

نور مقدم کی موت بے حد دردناک ثابت ہوئی ہوگی۔میرے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہے تاہم بڑے پیمانے پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ نور کے قتل کے فوراً بعد ظاہر جعفر کے والدین نے نہ صرف جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی بلکہ مقتولہ کے والدین کو خون کے عوض رقم ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔

قاتل کے ماں باپ دونوں نے جبر کے ذریعے معاملہ رفع دفع کرانے کیلئے اپنے وکیل سے بھی رجوع کیا۔ ایک عینی شاہد (سائیکو تھراپسٹ)نے والدین کی خوفناک بے حسی کے متعلق ٹی وی چینل پر چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ والدین کے کہنے پر ظاہر جعفر کی رہائش گاہ پر پہنچ کر اس نے نور کی لاش دیکھی۔ اس نے انہیں قتل کی اطلاع دی ۔ والدین کا کہنا تھا کہ ظاہر نشے میں ہوگا۔محسوس ایسا ہوتا ہے کہ معالج کچھ نامعلوم ترغیبات کے باعث اپنے منصب سے دغا کر بیٹھا اور قاتل کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کیلئے اپنی تیاری کو حقائق سے خلط ملط کرنے کی کوشش کی۔

کوئی ایک دو افراد نہیں بلکہ وحشیوں کی ایک لابی ظاہر جعفر کے دماغی عدم توازن کا بہانہ کرکے قاتل کو پھانسی چڑھنے سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے پکڑے جانے پر ظاہر جعفر اپنے مکمل ہوش و حواس میں تھا۔

عدالتی سماعت، پولی گراف ٹیسٹ اور پریس رپورٹرز کے سوال و جواب کے دوران بھی قاتل ہوش میں تھا۔یہ مقدمہ چل رہا ہے اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے تاہم محسوس ایسا ہوتا ہے کہ قتل کے کسی عام مقدمے کے مقابلے میں ٹرائل کو طول دیا جارہا ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور معاشرے کا بڑا حصہ تشویش اور اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے جسے سفاکانہ قتل نے ویسے ہی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

سوشل میڈیا صارفین نے مہم چلا کر یہ مطالبہ جاری رکھا ہوا ہے کہ مقتولہ نور مقدم کو انصاف دیا جائے جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ کیس کا نتیجہ ماضی کے مقابلے میں مختلف نکلے۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ یہ کیس بھول جائیں گے تو وہ غلطی پر ہے۔

Related Posts