برطانیہ میں اپنے گھر سے امریکہ روانگی کے وقت دل ایک عجیب بےچینی میں مبتلا تھا۔ ایک طرف امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھنے کی خوشی اور بھتیجی کی شادی میں شریک ہونے کی بےتابی، تو دوسری طرف دوری کا وہ غم جو ہر پردیسی کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔
دل میں کئی سوالات گردش کر رہے تھے۔ کیا یہ شادی پاکستان کی دھرتی پر ہوتی تو سب کچھ کیسا ہوتا؟ انہی خیالات کے ساتھ جب جہاز میں بیٹھا اور آنکھیں موندیں تو پاکستان میں شادیوں کے رنگین مناظر یادوں کی طرح چلنے لگے۔
13 گھنٹے کی طویل پرواز کا آغاز ہوا۔ جب جہاز بلند ہوا تو نیچے جھانک کر زمین کے حسین مناظر دیکھنے کو ملے۔ بلند و بالا عمارتیں چھوٹے کھلونوں کی مانند نظر آ رہی تھیں۔ ایئر ہوسٹس کی خوش اخلاقی اور جہاز کے اندر کا سکون، تھکن بھری سوچوں کو کچھ پل کے لیے مٹا رہا تھا۔
کھڑکی سے نظر دوڑائی تو نیچے پھیلا ہوا سمندر، پہاڑوں کی چوٹیاں، اور بادلوں کے درمیان سورج کی کرنیں کسی خواب کا حصہ معلوم ہو رہی تھیں۔ قدرت کے ان حسین نظاروں نے دل کو سکون بخشا، لیکن دماغ میں بھتیجی کی شادی کی تیاریاں اور گھر والوں کی غیر موجودگی کا خیال بار بار دل کو اداس کر رہا تھا۔
جہاز میں جب آنکھ بند کی، تو لاہور کی وہ گلیاں یاد آئیں جہاں شادیوں کے دن ڈھول کی تھاپ پر نوجوان جھومتے ہیں، خواتین اپنے منفرد گیت گاتی ہیں، اور ہر گلی خوشیوں سے گونج رہی ہوتی ہے۔
شادی کی دعوتوں میں لذیذ کھانے، بچوں کی قلقاریاں، اور بڑوں کی ہنسی خوشی کے مناظر پردیس میں خواب سے کم نہیں لگتے۔ پاکستان میں شادی صرف دو دلوں کا ملن نہیں بلکہ خاندان کے ہر فرد کے لیے ایک جشن ہوتا ہے۔
جب ڈینور ایئرپورٹ پر جہاز اترا تو یخ بستہ ہوائیں استقبال کر رہی تھیں۔ زمین پر ہلکی برف کی تہہ اور آسمان سے گرتے برف کے گالے کسی فلمی منظر کا حصہ معلوم ہو رہے تھے۔ دل کو خوشی تھی کہ بھتیجی کی خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔
نایاب، جو ہالینڈ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے امریکہ گئی تھی، ایک خوبصورت چرچ میں اپنے جیون ساتھی کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کر رہی تھی۔ لیکن یہ شادی پاکستان کی شادیوں جیسی رونقوں سے خالی تھی۔ ویڈیو کال پر پاکستان میں موجود اس کی والدہ اور بہن بھائی اس لمحے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظروں میں خوشی اور آنکھوں میں آنسو صاف دکھائی دے رہے تھے۔
نایاب کی والدہ کی تعریف کرنا ضروری ہے، جنہوں نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اچھے اخلاق اور اقدار کا سبق دیا۔ ان کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ نایاب آج ایک کامیاب اور خودمختار زندگی کا سفر شروع کر رہی تھی۔
پردیس جانے والوں کے دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو خود اس کرب سے گزرا ہو۔ یہاں کی زندگی عیش و آرام کی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پردیسی ہر لمحہ اپنوں کی قربت کو ترستا ہے۔ تہواروں کی ویرانی اور خوشیوں کی کمی پردیس کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
نایاب کی شادی کے دن ان کے والدین کا ویڈیو کال پر اپنی بیٹی کو رخصت ہوتا دیکھنا ایسا لمحہ تھا جس نے دل کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ دعا کر رہے تھے کہ کاش یہ موقع پاکستان میں ہوتا، جہاں ہر طرف گونجتی خوشیوں کی آوازیں ہوتی۔
نایاب، ہما، حنا، نوریہ، سنبل اور میری بیٹی ثمر نے ملکر تمام انتظامات کو حتمی شکل دی اور انتہائی مہارت سے شادی کی تمام رسومات کو احسن طریقے سے انجام دیا جس سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اپنے دیس میں لوٹ آئے ہوں۔ اس پر مسرت موقع پر رومیل فاؤس اور مسز ثمینہ ارشاد کی شرکت نے تقریب کو مزید پر اثر اور خوبصورت بنایا۔
یہ شادی میرے لیے ایک سبق بھی تھی کہ اپنوں کے بغیر خوشیاں ادھوری لگتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہر پردیسی کو اپنے ملک کی سرزمین پر اپنوں کے ساتھ زندگی کے خوشیوں بھرے لمحات گزارنے کا موقع ملے۔ پردیس میں رہنے والے اپنے خاندان کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، لیکن ان کی اپنی خوشیاں اکثر پس پردہ رہ جاتی ہیں۔
دل یہ چاہتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو وہ مواقع ملیں جہاں انہیں پردیس جانے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ اپنی دھرتی، اپنے خاندان، اور اپنی روایات کے ساتھ زندگی کے خوشیوں بھرے لمحے منا سکیں۔
تحریر: جاوید عنایت
سینئر صحافی، لیسٹر، برطانیہ
javedinayat2003@yahoo.co.uk فیڈ بیک: