عمران خان کافی عرصے سے جیل میں گوشہ نشین ہیں جبکہ پاکستانی میڈیا انہیں نام سے پکارنے کی بجائے ”چیئرمین پی ٹی آئی“ کہتا ہے جیسے پرانے زمانے میں خاتونِ خانہ شوہر کا نام لینے کی بجائے اسے ”منے کے ابا“ کہا کرتی تھی۔
حال ہی میں منے نے بھی ایک کارنامہ سرانجام دے ڈالا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں منے کی والدہ جمائمہ گولڈ اسمتھ نے اپنے ہمراہ منے (قاسم خان) کی تصویر شیئر کرتے ہوئے قاسم کی ایم آئی ایف یو ایپ لانچ کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی کے سابق رکنِ سندھ اسمبلی عدیل احمد سمیت متعدد سوشل میڈیا صارفین نے قاسم خان اور والدہ کو مبارکباد دی اور اس موقعے پر کچھ ”پٹواریوں“ کو بھی خوب سنائیں جو موقع غنیمت جانتے ہوئے عمران خان پر آوازے کسنے اور ان کی ”من گھڑت“ بدعنوانی پر بدنامی جتانے کیلئے وہاں آدھمکے تھے۔
تازہ ترین سیاسی صورتحال(جسے زیادہ واضح الفاظ میں ”اسٹیبلشی“ صورتحال کہنا زیادہ بہتر ہوگا) کے مطابق نواز لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طلبگار اور پی ٹی آئی دیوار سے ہمکنار نظر آتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسد قیصر نے نواز شریف پر ایک طعنہ کس دیا۔
گزشتہ روز سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ الیکشن سے بہتر ہے نگران حکومت کی طرح نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا بھی نوٹیفکیشن ہی جاری کردیا جائے۔ انتخابات کیلئے بنایا گیا ماحول کسی بھی طرح فری اینڈ فیئر نہیں۔
بندہ پی ٹی آئی والوں سے پوچھے کہ تم لوگوں نے جو ٹوئٹر پر ”ماحول“ بنایا ہوا ہے، وہ فری اینڈ فیئر ہے؟ کیا ن لیگ کا بندہ قاسم خان کی ٹویٹ پر عمران خان کو طعنہ بھی نہیں دے سکتا؟ کیونکہ راقم الحروف کی رائے میں تو عمران خان بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں، کیا انہوں نے مہنگائی اور معیشت کنٹرول کی؟
اسد قیصر کا فرمانا تھا کہ ”اپوزیشن سیلیکٹیڈ پلس بن گئی ہے، اگر اس ماحول میں انتخابات ہوئے تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا“۔اگر اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو وہی پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے والی بات سامنے آتی ہے کہ کسی کالے چور کو بھی وزیر اعظم بنانا ہے تو بنا دو، عمران خان کو نہیں۔
تحریکِ انصاف کا چیئرمین جیل میں ہے اور نواز شریف آزاد۔ کیا اس تمام تر ”کارگزاری“ کا سہرا عدلیہ کے سر باندھا جائے؟ جس کے ایک جج نے اتنی عجلت میں فیصلہ سنایا جیسے اسے ٹرین پر چڑھنا ہو جبکہ دیگر ججز عمران خان کو جیل سے نکالنے میں اتنی سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جیسے انہیں گھر بھی نہ جانا ہو۔
اگر ہم اس ”کارگزاری“ کا سہرا اسٹیبلشمنٹ کے سر باندھنا چاہیں یا پھر سیاستدانوں کے یا موجودہ نگران حکومت کے سر، تو اس میں بھی اختلاف ہوگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی کہہ چکی کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور سیاستدان کہتے ہیں کہ ہمارا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔
نگران حکومت کہتی ہے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہورہا ہے اور کچھ قانون کے مطابق نہیں ہورہا، یہ سب کو نظر آرہا ہے۔کتنا قانون کے مطابق ہورہا ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں۔ ایسے میں قمر جلالوی کی ایک غزل یاد آجاتی ہے جو شاید انہوں نے عمران خان پر ہی لکھی تھی، حالانکہ ان کے دور میں عمران خان وزیر اعظم تو کیا، قومی ٹیم کے کپتان بھی نہیں تھے۔
اردو کے باکمال شاعر قمر جلالوی کی وفات 60ء کی دہائی کے اواخر میں ہوئی جب عمران خان نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا بمشکل آغاز ہی کیا تھا، پھر بھی مرزا غالب کو سائنس کی اور شاید قمر جلالوی کو عمران خان کی سمجھ آگئی تھی کہ ان کا آگے کیا ہونے والا ہے۔خاص طور پر ان کی ایک غزل کے کچھ اشعار تو عمران خان کے متعلق ہی لگتے ہیں:
دبا کے چل دئیے سب قبر میں، دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو؟
کیونکہ پی ٹی آئی کے بعض سیاستدانوں نے اس جیل کو قبر کی طرح تنگ قرار دیا ہے جہاں آج کل عمران خان کو رکھا گیا ہے۔اسی غزل کے دیگر اشعار ملک کے موجودہ سیاسی حالات کی عکاسی کرتے ہیں، کس طرح؟ یہ بتانے کیلئے ایک اور کالم لکھنا پڑے گا۔
آخر میں اسی غزل کا ایک اور شعر، اسٹیبلشمنٹ کی نذر:
اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو؟