رواں ماہ 26 اور 27 جولائی کی درمیانی شب سپریم کورٹ کے حیرت انگیز فیصلے نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت کے اسی قسم کے ایک اور فیصلے کی یاد دلا دی جس کے تحت پہلے تو قومی اسمبلی بحال کی گئی اور پھر سابق وزیر اعظم عمران خان تحریکِ عدم اعتماد سامنے لائے جانے کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہوگئے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے حمزہ شہباز کو وزارتِ اعلیٰ سے محروم اور سابق اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو اسی عہدے سے نواز دیا ہے جس پر مسلم لیگ (ن) اور اتحادی سیاسی جماعتیں، خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) خاصے ناراض نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تو اپنے صاحبزادے کی اقتدار سے محرومی پر واضح پیغام بھی دیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی ساکھ کا تقاضا تھا کہ سپریم کورٹ فل بینچ تشکیل دیتی۔ عدالتی فیصلے سے قانون دانوں، میڈیا اور عوام کی انصاف کیلئے توقعات کو دھچکا لگا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے انصاف کی توقعات کو دھچکا جیسا کوئی بیان عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کے موقعے پر جاری نہیں کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ فیصلے کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ آئین نے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کو ریاستی اختیارات تفویض کیے اور سب اداروں کو متعین حدود میں کام کرنے کا پابند کیا۔ کوئی ادارہ کسی دوسرے کے اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
گویا وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ بلکہ آئین کی بالادستی کے خلاف تھا۔ یہاں ہمارا چھوٹا سا اور معصومانہ سا سوال یہ ہے کہ اگر جان کی امان پائیں تو ہمیں اتنا ہی بتا دیجئے کہ جب عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے خلاف ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی اور سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا تو کیا وہ آئین کے خلاف نہیں تھا؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر حمزہ شہباز کے حق میں آتا تو پی ڈی ایم اور ن لیگ سمیت حکمراں اتحاد کی تمام جماعتیں اسے من و عن قبول کرلیتیں لیکن چونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے حکومت کے خلاف فیصلہ کیا اور وزیر اعظم کے بیٹے حمزہ شہباز کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا، لہٰذا یہ فیصلہ نہ تو ن لیگ قبول کرے گی اور نہ ہی جمعیت علمائے اسلام (ف)۔ کیا عوام کو یہ سوال پوچھنے کا بھی حق نہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے رولنگ دی کہ اپوزیشن کی لائی گئی تحریکِ عدم اعتماد بیرونی سازش کا نتیجہ ہے، اس لیے اسے مسترد کرتا ہوں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ دوست محمد مزاری نے رولنگ دے کر حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے پھر فیصلہ دیا کہ رولنگ غلط ہے۔
غور کیا جائے تو سپریم کورٹ نے تو ریاستی ستون کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا درست استعمال کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کی آمریت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی صرف ا س لیے کیونکہ سیاستدان اپنے مسائل کا فیصلہ کروانے کیلئے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس خود پہنچے تھے۔ آپ اپنے مسائل سپریم کورٹ لے کر جانا چھوڑ دیں تو ایسے فیصلے بھی سامنے نہیں آئیں گے۔