دماغی صحت اور سنتِ رسول ﷺ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی سے ہم دماغی صحت کے متعلق بے شمار باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ قرآنِ پاک سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ذہنی فصاحت و بلاغت کی حفاظت کا ذمہ لیا جبکہ نبئ آخر الزمان ﷺ کو حضرت جبریل علیہ السلام جیسے برگزیدہ فرشتے سے گفت و شنید سمیت دیگر اہم الہامی فرائض سرانجام دینا تھے۔ اگر ہمیں اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانا ہو تو ہم رسول اللہ ﷺ سے 10 اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔

پہلی بات جو ہم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے احساسات پر گفتگو کرنی چاہئے۔ جیسے ہی رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی، آپ دوڑ کر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو اور پھر وحئ الٰہی کا پہلا تجربہ انہیں بتایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی شرمسار نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور بے کسوں اور فقیروں کے معاون ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیارے نبی ﷺ کو اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں لے گئیں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پریشانی کے وقت محبت کرنے والوں سے بات چیت کرنا تنِ تنہا مصائب کا سامنا کرنے سے بہتر ہے۔

سنتِ نبوی ﷺ سے ہمیں جو دوسرا سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ متحرک اور فعال رہنا چاہئے۔ قرآنِ پاک کی سورۂ مزمل کی آیت نمبر 1 سے 2 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے، رات کے کچھ حصے میں (نماز کیلئے) قیام کرو۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ ذہنی دباؤ کیلئے نجات حاصل کرنی ہو تو نیند سے جاگ کر متحرک ہوجانا چاہئے۔ نماز کا مقصد روحانی اور جسمانی دونوں طرح کی نقل و حرکت ہے۔اس کیلئے ہمیں وضو کرنا پڑتا ہے۔ ناپاکی کی صورت میں کپڑے بدلنا، قبلے کی سمت تلاش کرنا اور جماعت کیلئے مسجد کی طرف جانا اہم اقدامات ہیں اور ہمیں یہ تمام اسباق رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے مل جاتے ہیں۔

تیسری بات جو ہم اسلامی تعلیمات سے سیکھ سکتے ہیں وہ بہتر کھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحرائے عرب میں تنِ تنہا ایک بچے کو جنم دینے والی حضرت بی بی مریم علیہا السلام کو کھانے پینے کا حکم دیا۔ سورۂ مریم کی آیت نمبر 26 میں ارشاد فرمایا کہ کھاؤ اور پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ روح کی تسکین کا جسم اور معدے کی تسکین سے کافی گہرا تعلق ہے۔

چوتھا سبق جو ہمیں اسلامی تعلیمات سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی لت یعنی بری عادت سے اجتناب ضروری ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ دور کی بری لت سوشل میڈیا ہے اور ہم سب اسمارٹ فونز سے دور ہو کر زندگی کو تلخ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہم سب کو ایسی تمام بری عادات سے لڑ کر اپنے آپ کو بہتر کرنا ہوگا۔

پانچواں سبق یہ ہے کہ اپنے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے ملاقاتوں اور روابط کا خیال رکھیں۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اہلِ خانہ کے علاوہ جن لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ان میں رسول اللہ ﷺ کے دوست یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔ اچھے برے وقت میں دوستوں اور رشتہ داروں کا ساتھ دینا سیکھئے۔ قرآنِ پاک کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کرواور گناہ اور ظلم میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جو لوگ آپ سے رشتہ توڑ جائیں، ان سے بھی روابط بحال رکھے جائیں۔

چھٹی بات اللہ سے مدد مانگنا ہے۔ قرآنِ پاک سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر کھڑے ہو کر اللہ سے کس طرح مدد طلب کرتے تھے۔ سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 25 سے 35 کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ، میرے معاملات کو آسان کر اور میری زبان سے لکنت دور فرما تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے ہی خاندان سے میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنا۔ مجھے ہارون علیہ السلام کے ذریعے طاقت عطا فرما تاکہ ہم دونوں تیرا ذکر بلند کرسکیں کیونکہ تو ہی ہمیشہ رہنے والا اور جاننے والا ہے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بڑی اہم دعا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کلیم اللہ ہونے کے باوصف اللہ سے مدد مانگا کرتے تھے اور کوئی ایسا ساتھی طلب کرتے تھے جو دعوتِ تبلیغِ دین کا بوجھ بانٹ سکے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہمیں صراطِ مستقیم سے بھٹکنے کا خدشہ ہو تو اللہ سے مدد مانگیں۔ ہمارے نبی ﷺ کے ساتھی صحابہ کرام کے ساتھ کا مقصد بھی تبلیغِ دین تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اکیلے تبلیغِ دین کی بجائے صحابہ کرام کا ساتھ پسند فرمایا۔

ساتویں بات کچھ وقت کیلئے خود کو آرام دینا بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک سے ہٹ کر ہر روز یا ہر مہینے روزہ نہیں رکھتے تھے، اور مکہ سے دور ہوجانے کے باوجود بھی آپ ﷺ نے ہر سال حج نہیں فرمایا۔ آپ ﷺ نے ذاتی اور خاندانی زندگی کیلئے بھی وقت نکالا کیونکہ اپنے روزانہ کے معمول سے ہٹ کر اہلِ خانہ کے ہمراہ وقت گزارنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

آٹھویں بات یہ ہے کہ جن سرگرمیوں پر مہارت حاصل ہو، ان میں مصروف رہنا بھی اچھی بات ہے کیونکہ ان سے ذہنی اطمینان و سکون اور مہارت حاصل ہوتی ہے جن میں تحریر و تقریر، مطالعۂ کتب اور گھڑ سواری شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں کا لطف اٹھایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی یہی نصیحت فرمائی۔

نویں بات یہ ہے کہ اپنی ذات کو سمجھیں اور قبول کریں کہ آپ کون ہیں۔ کچھ لوگوں کو جسمانی، ذہنی یا روحانی مسائل درپیش ہوتے ہیں جنہیں قبول کرنا چاہئے تاہم لوگ اس کے برعکس عمل کرتے ہیں جس کے نتیجے کے طور پر اپنے مسائل میں اضافہ کر بیٹھتے ہیں۔

دسویں اور آخری بات یہ ہے کہ دوسروں کا خیال رکھیں۔ اپنے آپ کو بہتر بنانے کیلئے دوسروں کی دیکھ بھال اور ان سے تعاون ضروری ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں خود بے حد مسرت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا دنیا کو دیا ہوا خوشی کا اصل مقصد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تعلیم دی کہ ایک مومن اگر دوسرے کا خیال رکھے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل ہوتی ہے۔ 

Related Posts