گرتی ہوئی دیوار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 طاقتور ممالک کے لئے کمزور ممالک کو دبائے رکھنا، انہیں بلیک میل کرنا یا تباہ کرنا تو اسی دور سے بہت آسان ہوگیا تھا جب اخبارات و جرائد کے بعد ریڈیو اور ٹی وی کا دور بھی آپہنچا تھا۔ ان الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی جنگی ہتھیار کے طور پر اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ عام ڈومیسٹک و انٹرنیشنل ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ ایسے ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی چینلز بھی رو بہ عمل ہوتے چلے گئے جو ٹارگٹ ملک کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے وقف تھے۔

چنانچہ اس وقت بھی دنیا کے بعض طاقتور ممالک کے ایسے ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی پروگرامز چل رہے ہیں جن کی نشریات ان کے مالک ممالک میں تو ممنوع ہیں لیکن ٹارگٹ ممالک میں یہ آن ایئر رہتے ہیں۔ جو ممالک انہیں چلا رہے ہیں انہوں نے اپنے ممالک میں ان کی نشریات اس لئے ممنوع رکھی ہیں کہ یہ اسٹیشنز جھوٹے پروپیگنڈے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سو اپنے ملک میں کوئی بھی انہیں کورٹ میں چیلنج کرکے ان کے جھوٹ کا پول کھول سکتا ہے۔

چنانچہ ان کی نشریات کو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے ملک کے عدالتی دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ یہ حقیقت کوئی سربستہ راز نہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی تینوں ممالک کے ایسے نشریاتی ادارے ہیں جو ان ممالک کی وزارت خارجہ کے ذیلی پروجیکٹس ہیں اور یہ ان ممالک کی زبان میں نہیں بلکہ ٹارگٹ ممالک کی زبانوں میں نشریات کرتے ہیں اور یہ نشریات خود امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں نہ دیکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی سنی جا سکتی ہیں۔ اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ورک فورس کے طور پر ٹارگٹ ممالک سے ہی ڈالر اور یورو کی محبت میں مبتلا صحافی ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔

مگر اب زمانہ مزید ارتقائی منازل طے کرچکا۔ اب ہم سوشل میڈیا کے دور میں کھڑے ہیں۔ یوں اب تصویر اور کسی منظر پر مشتمل مختصر سے کلپ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اب محض ایک تصویر منظم انداز وائرل کرکے کسی بھی ملک کی رائے عامہ کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاسکتا ہے۔ اور اسی سوشل میڈیا سے کوئی کلپ مین اسٹریم میڈیا پر مربوط حکمت عملی کے ساتھ پھیلا کر کسی بھی ملک کے خلاف عالمی سطح پر گمراہ کن پروپیگنڈا کرنا بہت ہی آسان ہوگیا ہے۔

کچھ سال قبل سوات میں خاتون کو کوڑے مارے جانے والے جعلی کلپ کا قصہ سب ہی جانتے ہیں۔ اس معاملے میں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا میں وٹہ سٹہ بھی چلتا نظر آتا۔ بعض مواقع پر مین اسٹریم میڈیا کا کوئی کلپ کسی ملک کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوکر فساد کا موجب بن جاتا ہے تو بعض کیسز میں مین اسٹریم میڈیا سوشل میڈیا کا کوئی کلپ اٹھا کر اس کے دم پر پروپیگنڈا شروع کر دیتا ہے۔ جسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے وہ یہی تو ہے۔ اور اس کا بانی روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن ہے۔ جس نے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کی آمیزش سے نہ صرف یوکرائن میں کامیابی حاصل کی بلکہ 2016ء کے امریکی انتخابات پر بھی پوری کامیابی سے اثر انداز ہوا۔

ففتھ جنریشن وار کا پہلا حوالہ امریکی میڈیا پر سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان بولٹن نے ہی دیا تھا۔ اس حوالے دو گھنٹوں پر مشتمل ڈاکومنٹری(Putin’s Revenge)بہت ہی اہم ہے۔ اس میں پوری تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ ویلادیمیر پیوٹن نے ففتھ جنریشن وار کی مدد سے کس طرھ امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اور امریکہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کا یہی استعمال امریکہ بھی 15 اگست کے بعد سے کابل میں افغان فاتحین کے خلاف کرنے جا رہا تھا مگر بری طرح فیل ہوا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کابل ایئرپورٹ سے اپنے میڈیا ہاؤسز کے نمائندوں کے ذریعے مسلسل یہ پروپیگنڈا کروایا گیا کہ لوگ افغان اسٹوڈنٹس کے خوف سے ہمارے ساتھ امریکہ جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بات شروع یہاں سے کی گئی کہ ہم اپنے سہولت کاروں کو لے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر جلد ہی سہولت کاروں کے بجائے عام افغان کی کابل چھوڑ کر امریکہ جانے کی باتیں شروع کردی گئیں۔ اس پروپیگنڈے کے ذریعے جہاں ایک طرف یہ باور کرانے کی کوشش ہو رہی تھی کہ فاتحین سے افغان شہری خوف میں مبتلا ہیں اور وہ ان کی حکمرانی میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ وہیں ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ہم افغانستان میں اتنے مقبول تھے کہ اب جب ہم جا رہے ہیں تو لوگ ہمارے ساتھ ہمارے ملک منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

جوں جوں یہ پروپیگنڈا بڑھتا گیا اتنے ہی مفاد پرست افغان خاندان کابل ایئرپورٹ پر جمع ہوتے چلے گئے اور یہی امریکی چاہتے تھے کیونکہ جتنے زیادہ لوگ ہوتے اتنا ہی پروپیگنڈا مزید مؤثر ہوتا اور آنے والے وقتوں میں بھی امریکہ بہادر یہی دعوی کرتا کہ کابل سے انخلاء کے موقع پر ہزارہا لوگوں کا ہمارے ساتھ جانے کے لئے ایئرپورٹ پر جمع ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ ہم افغانستان میں ناپسندیدہ قوت نہیں تھے۔

ہم سے تو لوگوں کو شدید محبت تھی۔ اتنی محبت کہ انہیں ساتھ لے جانے کے لئے ہمیں تاریخ کا سب سے بڑا ایئرلفٹ آپریشن کرنا پڑا۔ لیکن اس ہجوم پر کسی اور کی بھی نظر تھی اور جتنا یہ ہجوم بڑھتا گیا اتنا ہی اس کا کام آسان ہوتا چلا گیا جس کی اس ہجوم پر نظر تھی، یعنی داعش۔ اس نے وار کیا اور بہت ہی مہلک وار کیا۔ مگر ایک بات بہت ہی قابل غور ہے۔ اس حملے سے دو دن قبل ہی امریکہ نے اس کا الرٹ جاری کرنا شروع کردیا تھا۔

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جب حملہ آور خود کش بمبار آرہے تھے تو وہ تو امریکہ کو نظر نہ آئے، مگر اس حملے کے چند گھنٹے بعد امریکہ کو ننگرہار کے قریب نہ صرف اس حملے کا ماسٹر مائنڈ نظر آگیا بلکہ اسے ڈرون حملہ میں مارنے کا دعویٰ بھی کردیا گیا۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمیشہ حملے قبل تو امریکہ کو حملہ آور نظر نہیں آتا مگر حملے کے ایک دو گھنٹے بعد ہی اسے سب کچھ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے ؟ نائن الیون کو بھی تو یہی ہوا تھا۔ 19 ہائی جیکر واردات سے قبل تو نظر نہ آسکے مگر جب واردات ہوگئی تو ایک گھنٹے میں سب نظر آگئے۔ امریکا سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر آپ کو کابل حملے کی پیشگی اطلاع تھی اور حملے کے چند گھنٹے بعد ہی آپ نے ماسٹر مائنڈ بھی ڈھونڈ نکالا تو ایئرپورٹ پر حملہ کرنے کے لئے آنے والے آپ کی ان تیز نگاہوں سے کیسے بچ گئے ؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہمیشہ حملے سے قبل آپ کے صرف کان کام کرتے ہیں، مگر آنکھیں ہر بار حملے کے بعد کام شروع کرتی ہیں ؟۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حملہ جان بوجھ کر ہونے دیا گیا۔ تاکہ اس خطے میں اپنی موجودگی کی اہمیت باور کرائی جاسکے۔ اور خطے کے بعض ممالک پر دباؤ بڑھایا جا سکے کہ ہمیں اڈے دئے جائیں تاکہ داعش کو ختم کرسکیں۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ جو بائیڈن کو فوری طور پر کوئی ایسی کامیابی درکار ہے جس کی مدد سے وہ اس داخلی دباؤ سے خود کو نکال سکے جو اس کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ مواخذے کے امکان کی صورت بھی زیر بحث ہے۔

اگر ہم غور کریں تو امریکہ کی داخلی سیاست پچھلے پندرہ برس کے دوران بہت پرتشدد ہوچکی ہے۔ اور یہ اب سیاسی طور پر بری طرح منقسم ملک ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز اب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سیاسی اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ 15 اگست سے قبل تک وہاں ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کیپٹل ہل والے واقعے کے سبب دباؤ میں تھی اور ڈیموکریٹس کو سیاسی بالادستی حاصل تھی۔ لیکن 15 اگست کے بعد سے صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ اب ریپبلکن حاوی ہیں اور ڈیموکریٹس کابل والے بلنڈر کے سبب بیک فٹ پر ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ یہ اندرونی کشیدہ صورتحال امریکہ کو مزید نقصان سے ہی دوچار کرے گی اور اس صورتحال کا بھرپور فائدہ چین اور روس اٹھائیں گے۔ حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین تائیوان کے حوالے سے کوئی پلان پہلے ہی بنائے بیٹھا ہے۔ وہ بس مناسب موقع کے انتظار میں ہے۔ اور یہ موقع اسے امریکہ کا یہ داخلی سیاسی انتشار ہی فراہم کرے گا۔

پچھلے پچیس سال کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیا پر امریکہ کی گرفت تیزی سے ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ اور اب اس کا ایک زوال پذیر طاقت ہونا مزید تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں اپنی سرحدوں سے باہر اس کے مفادات کا تحفظ اس کے لئے مشکل تر ہو رہا ہے، وہیں وہ داخلی طور پر بھی امریکہ ایک شدید سیاسی بحرانی کیفیت میں ہے۔ دعویٰ اس کا یہ چلا آیا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی ہی دنیا کا عالمگیر نظام بن کر رہے گا مگر وائٹ سپرمیسی کی تحریک کا پہلا ہی نشانہ لبرل ڈیموکریسی ہے۔ یعنی جس نظام کو اس نے پوری دنیا پر مسلط کرنا تھا وہ خود امریکہ میں ہی داؤ پر لگ چکا ہے۔

امریکی سرحدوں کے باہر اب مزید ایک ہی بڑا دھچکا اس کی لبرل ڈیموکریسی کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ثابت ہوگا۔ افغانستان میں 15 اگست اور اس کے بعد کے واقعات نے اس کی ساکھ پہلے ہی تباہ کردی ہے۔ ایک برطانوی رکن پارلیمان تو ٹی وی پر یہ تک کہہ گئے کہ میں یہ سوچ کر ہی پریشان ہوں کہ ایک کمزور امریکا والے ورلڈ میں ہمارا کیا حال ہوگا ؟ یہ مایوسی کا بہت ہی شدید اظہار تھا۔ اور اسی لئے تھا کہ انہیں بھی امریکا کی دیوار گرتی نظر آنے لگی ہے۔ زمینی حقائق یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ اس گرتی ہوئی دیوار کو بس ایک ہی مزید دھکے کی ضرورت ہے۔ اور کوئی بعید نہیں کہ یہ دھکا ویتنام میں لگ جائے۔ یہ دھکا لگنا تو ہے بس دیکھنا یہ باقی ہے کہ لگتا کب ہے ؟..

Related Posts