وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نور مقدم کا بہیمانہ قتل پاکستان میں خواتین پر حملوں کے سلسلے میں ایک تازہ ترین واقعہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے کارکنان کا کہنا ہےکہ پاکستان میں خواتین کے خلاف حملے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ملک بڑی شدت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
نور مقدم ایک سفارتکار کی صاحبزادی تھی۔ ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کے قتل سے یہ بھی کھل کر سامنے آئی گئی ہے کہ معاشرے میں ہر سطح پر خواتین کے خلاف مسلسل تشدد بڑھ رہا ہے۔
تاہم اس طرح کے تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت کا تعلق ملک کے غریب اور متوسط طبقے سے ہے ، اور ان کی اموات کی اطلاع اکثر اوقات چھپا بھی لی جاتی ہے اور بعض اوقات نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ اس مہینے ایک بل منظور کرنے میں ناکام رہی جس میں خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کی دفعات شامل کی گئیں تھیں، جن میں شوہر کی جانب سے بھی تشدد کے خلاف دفعات شامل کی گئی تھیں ، جس کے بعد بل نظرثانی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھیج دیا گیا تھا۔
متعدد عوامی شخصیات نے وزیراعظم عمران خان پر زور دیا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کا بل 2021 بغیر کسی تاخیر کے پاس کرائیں، تاہم بل ابھی تک پاس کیوں نہیں ہوا؟
پاکستان میں خواتین پر تشدد
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی رپورٹ کے مطابق اس سال کے شروع میں ملک بھر میں گھریلو تشدد کی ہاٹ لائنز سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جنوری اور مارچ کے درمیان گھریلو تشدد میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارچ کے بعد جب سے کووڈ 19 لاک ڈاؤن شروع ہوا حالات اور زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔
2020 میں ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری ہونے اعدادوشمار کے مطابق خواتین پر تشدد کے حوالے پاکستان کا نمبر 156 ممالک میں سے 153 نمبر ہے اس سے آگے صرف تین ممالک رہ جاتے ہیں جن میں افغانستان ، عراق اور یمن شامل ہیں۔ 20 سالوں پر مبنی رپورٹ پر اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے ہیں۔
گھریلو تشدد کے بل میں نیا کیا ہے؟
پارلیمنٹ میں پیش ہونے والے نئے قانونی مسودے میں یہ نیا نقطہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد صرف جسمانی زیادتی تک محدود نہیں ہے بلکہ اب اس میں مارپیٹ کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد سے مراد تمام جسمانی ، جذباتی ، نفسیاتی ، جنسی اور معاشی بدسلوکی کے پہلو شامل کیے جائیں گے جو عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، کمزور افراد یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ روا رکھا جائے گا۔ ہر وہ شخص جواب دے ہوگا جس نے کسی بھی شخص کو پریشانی ، خوف میں مبتلا کیا ہوگا۔
گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے پاکستان پینل کوڈ کی سزاؤں کو نئے قوانین سے تبدیل کردیا گیا اور پرانی سزاؤں میں موجود خامیوں کو بھی دور کردیا گیا ہے۔ بل میں گھریلو تشدد پر چھ ماہ سے تین سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ نیا بل متنازعہ کیوں بن گیا ہے؟
5 جولائی 2021 کو وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو ایک خط لکھا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) بل 2021 پر نظرثانی کی درخواست کی گئی۔
خط میں بابر اعوان نے نشاندہی کی کہ بل ، ابتدائی طور پر قومی اسمبلی (این اے) نے اس سال اپریل میں منظور کیا تھا ، سینیٹ کی جانب سے مجوزہ قانون میں ترامیم کی تجویز کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو واپس بھیج دیا گیا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے اس بل میں یہ دیکھنا ہے کہ جو قانون پاس کیا گیا وہ اسلامی احکامات سے متصادم تو نہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 31 کی خلاف ورزی تو نہیں کررہا ہے”۔
لوگوں نے دواطراف سے اس خبر پر ردعمل دینا شروع کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ کیسی تشویشناک صورتحال ہے کہ بارہ مردوں پر مشتمل کونسل ایسے معاملات کے فیصلے کرے گی جو مردوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس بل کی سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی ہے جو ایک مثبت سوچ رکھنے والی جماعت کہلاتی ہے۔
سی آئی آئی کے پہلے فیصلے
2016 میں ، سی آئی آئی نے ایک بل تجویز کیا تھا جس کے تحت ایک شوہر کو ضرورت پڑنے پر اپنی بیوی کو “ہلکا پھلکا” مارنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ اسکولز ، اسپتالوں اور دفاتر میں مرد و خواتین کے اختلاط پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
اس تجویز کے بعد انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں نے اس کے خلاف بہت زیادہ شور مچایا تھا۔ قائداعظم یونیورسٹی کی ماہر تعلیم فرزانہ باری نے مجوزہ بل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
شوہر کو کسی بھی طرح اپنی بیوی کو مارنے کی اجازت دینا پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے خلاف ہے جس پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں اور جس کے پابند ہیں۔ یہ کونسل پاکستانی ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے بدنام کا باعث ہے۔
یہ بھی پڑھیں : محکمہ داخلہ سندھ نے محرم الحرام سے متعلق ایس او پیز اور ضابطہ اخلاق جاری کردیا