آزاد کشمیر انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اور نئے وزیر اعظم کا انتخاب

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آزاد کشمیر انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اور نئے وزیر اعظم کا انتخاب
آزاد کشمیر انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار اور نئے وزیر اعظم کا انتخاب

آزاد کشمیر کی سیاست ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتاہے لیکن اس وقت آزاد کشمیر کی سیاست اور وہاں کے انتخابات کے پورے موضوع کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف آزاد کشمیر کے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات اور ان میں مذہبی طبقات کے موضوع پر بات کرنی ہے اور اس موضوع کے بھی صرف ان پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے جن کے بارے میں ہمارے ہاں ادھوری معلومات ہیں،پورا منظرنامہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے پوری بات سمجھنا ممکن نہیں اور طرح طرح کے سوالات اور ابہامات ہیں۔

آزاد کشمیر کی سیاست میں مذہبی عنصر کیا اور کتنا ہے؟ اس کے مختلف پہلو ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے مسلکی بنیادوں پر زمینی حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے اہلسنت والجماعت علماء دیوبند کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور عبدالرشید ترابی صاحب کے معاملے پر الگ بات ہوگی۔اسی طرح دیگر مسالک کا بھی جائزہ پیش کیا جائے گا۔

آزاد کشمیر میں پاکستان کی طرح دیوبندی مکتب فکر کے بڑے گہرے اثرات ہیں اور بعض علاقوں میں بعض اداروں اور شخصیات کی محنت کے مظاہر دور دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔سب سے زیادہ تبلیغی جماعت کا وسیع مگر خاموش بلکہ جامد اور لاتعلق ووٹ بینک موجود ہے جسے کبھی بھی فکرمند،متوجہ اور فعال کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تبلیغی جماعت کے علاوہ جو لوگ سیاست میں باقاعدہ طور پر حصہ لیتے ہیں ان میں سب سے بڑی،مؤثر اور فعال قوت جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیرہے جس کی قیادت مولانا سعید یوسف کے پاس ہے۔ مولانا سعید یوسف مولانا فضل الرحمن کے معتمد خاص بلکہ چہیتے ہیں اور مولانا کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں۔مولانا سعید یوسف کے مولانا فضل الرحمان سے تعلق کا اندازہ اس سے لگائیے کہ گزشتہ انتخابات میں مولانا بنفس نفیس ان کی انتخابی مہم میں تشریف لے گئے اور بڑا دبنگ اعلان کیا۔ آپ نے لوگوں کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے اور مولانا سعید یوسف پر اعتماد کے اظہار کے لیے کہا کہ “مولانا سعید یوسف کو اسمبلی تک آپ پہنچا دیں انہیں وزیر اعظم بنوانا میرا کام ہے۔”

اس تعلق اور اعتماد کے باوجود بعض حلقوں کا تاثر یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمان اگر اپنی خداداد صلاحیتیں،سیاسی بصیرت اور ن لیگ سے اپنے تعلقات کو صحیح طرح استعمال کریں تو وزیر اعظم نہ سہی، مولانا سعید یوسف کو اسمبلی میں بڑی آسانی سے پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے صرف مولانا سعید یوسف کا ہی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ آزاد کشمیر میں جے یوآئی پارلیمانی جماعت بھی بن جاتی۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ مولانا سعید یوسف کی جماعت آزاد کشمیر کی جے یو آئی کہلاتی ہے اور عملاً پاکستانی جمعیت کی ذیلی شاخ سمجھی جاتی ہے حالانکہ کہنے کو وہ ایک آزاد اور خودمختار جماعت ہے۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ کشمیر میں جمعیت کے نام سے تین جماعتیں کام کر رہی ہیں ایک تو مولانا سعید یوسف کی جمعیت جسے آزاد کشمیر کے اکثر علماء کرام کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے جنرل سیکرٹری مولانا امتیاز عباسی ہیں جو دھیر کوٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔دوسری جماعت آل جموں وکشمیر جمعیت علماء اسلام ہے جومولانا محمود الحسن اشرف اور ان کے چند رفقاء کا نام ہے۔ یاد رہے کہ معروف روحانی شخصیت مولانا مفتی محمودالحسن مسعودی مولانا سعید یوسف کی جمعیت کی سرپرستی اور حمایت فرماتے ہیں جبکہ تیسری جماعت بریلوی مکتب فکر کے احباب کی قدیم جماعت ہے جو جمعیت علماء پاکستان کی طرز پر جمعیت علماء جموں وکشمیر ہے۔

جے یو آئی آزاد کشمیر کی طرف سے مختلف حلقوں میں علماء کرام اور امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن ان میں سے دو حلقے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ایک حلقہ دھیر کوٹ اور غازی آباد کا حلقہ ہے جو سردار عبدالقیوم خان مرحوم کا آبائی علاقہ ہے جہاں سے مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق خان الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔سردار عتیق راولپنڈی کے شیخ رشید کی طرح کچھ ایسے لوگوں کے سدا بہار نمائندے سمجھے جاتے ہیں جو ناقابلِ تسخیر ہوتے ہیں۔اسی حلقے سے جماعت اسلامی کے پرانے کارکن اور اچھی شہرت رکھنے والے میجر لطیف خلیق پی ٹی آئی کی طرف سے انتخابی دنگل میں شریک ہیں جبکہ مولانا امتیاز عباسی بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔مولانا امتیاز عباسی کے ساتھ یوں تو بہت سے علماء کرام ہیں لیکن بطور خاص بزرگوں میں مولانا سلیم اعجاز صاحب اور نوجوانوں میں مولانا مفتی طاہر سلیم نقشبندی صاحب جیسے کئ لوگ قابل ذکر ہیں۔ یاد رہے کہ مولانا سلیم اعجاز صاحب وفاق المدارس کی مجلسِ عاملہ کے رکن بھی ہیں اور مولانا امتیاز عباسی کے ادارے کے روح رواں بھی۔ علاقے میں آپ کے ادارے کی خدمات اور آپ کا شخصی اثر و رسوخ کافی ہے۔سیٹ نکالنا تو بظاہر ممکن نہیں لیکن ان حضرات نے اس حلقے میں بھرپور طریقے سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔دوسرا اہم ترین حلقہ مولانا سعید یوسف صاحب کا ہے۔اس حلقے پر اس وقت دنیا بھر کے مذہبی طبقات کی نظریں لگی ہوئ ہیں اور اگر مولانا سعید یوسف صاحب کو مولوی ہونے یا جمعیت سے وابستگی کی وجہ سے دانستہ گیم سے باہر نہ کیا گیا گیا تو وہ اس دفعہ سیٹ نکال لیں گے۔

مولانا سعید یوسف صاحب صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک انجمن اورایک تحریک ہیں۔حضرت مولانا یوسف خان رحمہ اللہ جیسی بلند پایہ ہستی کے جانشیں ہیں۔ مولانا سعید یوسف کی خوش قسمتی ہے کہ وہ آزاد کشمیرکی سب سے بڑی علمی شخصیت کی آغوش میں پلے بڑھے۔حضرت کی تعلیم و تربیت نے آپ کو کندن بنا دیا۔خطیب ایسے کہ جس محفل میں گویا ہوں محفل لوٹ لیتے ہیں عوامی مجمع ہو یا خواص کی محفل مولانا سعید یوسف ایسے برمحل،برجستہ گفتگو کرتے ہیں اور گاہے سوز وساز سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ سامعین وحاضرین وجد میں آ جاتے ہیں۔صرف اردو نہیں عربی پر بھی مکمل عبور ہے۔ امام کعبہ کی گفتگو کا ترجمہ ہو یا عرب دنیا میں اہل حق کی سفارت کاری قرعہ فال یا تو مولانا سعید یوسف کے نام نکلتا ہے یا یہ سعادت ںرادرم مولانا قاری ڈاکٹر الیاس کے نصیب میں آتی ہے۔(اللہ رب العزت ان دونوں بھائیوں کی جوڑی اور دوستی سلامت رکھیں۔آمین)مولانا سعید یوسف آزاد کشمیر میں جمعیت کے امیر ہیں،دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے رکن ہیں۔

مولانا سعید یوسف کا مقابلہ ڈاکٹر نجیب نقی سے ہے جن کے والد کرنل نقی کو مولانا سعیدیوسف کے والد گرامی مولانا یوسف خان نے شکست دی تھی۔ڈاکٹر نجیب نقی مسلم لیگ ن کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ آپ کئ دفعہ جیت چکے اور وزیر بھی رہے ان کو اس حلقے سےسابق خاتون ایم ایل اے سحرش قمر کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ سحرش قمر ان کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ سحرش کے والد گرامی اور خاوند قمر ہمارے محلے دار اور مقتدی ہیں یہ خاندان شریف فیملی کے قریب سمجھا جاتاہے لیکن اس دفعہ آزاد کشمیر میں چونکہ ن لیگ کے ستارے گردش میں ہیں اس لیے ڈاکٹر نجیب نقی اور سحرش قمر شاید مل کر بھی سیٹ نہیں نکال پائیں گے جبکہ اسی حلقے سے پی ٹی آئ نے پی پی سے درآمد کردہ ایک نوے پچانوے برس کےبابا جی کو ٹکٹ دیا ہے اس لیے پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن اس فیصلے پر ناراض بھی ہیں اور پی ٹی آئی کا روایتی جنون اور جوش وخروش بھی اس حلقے میں دکھائ نہیں دے رہا۔مولانا سعید یوسف کو حلقے بھر کے علماء کرام بالخصوص مولانا قاری یونس خان صاحب جیسے بااثر لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔سدھن برادری کا بھی بڑا ووٹ بینک ہے۔مولانا سعید یوسف کے رفقاء کے خلوص اور سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ سے برادر گرامی مولانا خالد محمود رحیمی صرف ووٹ اور سپورٹ کے لیے سفر کرکے تشریف لائے اس کے علاوہ بھی ایسی کئ مثالیں ہیں۔مولانا سعید یوسف نے مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لے کر اور اپنے رفقاء کی مشاورت سے زمینی حقائق اور حلقے کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آزاد امیدوار اور درخت کے انتخابی نشان سے الیکشن میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا اس کے بھی بہت مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علماء اور مذہبی طبقہ تو ہے ہی مولانا کے ساتھ لیکن اس فیصلے سے پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کے ناراض اراکین،مختلف برادریاں اورقبیلے بھی مولانا کی حمایت کر رہے ہیں۔سب سے خوش آئند امر یہ ہے کہ اہلسنت والجماعت اور پاکستان راہ حق پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کی طرف سے مولانا سعیدیوسف کی حمایت کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔مولانا نے انتخابی مہم کے دوران بھرپور محنت کی۔آپ کی میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم نے بھرپور کردار ادا کیا،جمعیت یوتھ فورس کا آئیڈیا بہت موثر رہاالغرض مولانا کی جیت کا پورا بندوبست ہے اگر اس حلقے سے نتائج بدلے نہ گئے اور ووٹ چرائے نہ گئے تو مولانا سعید یوسف ضرور جیت جائیں گے۔ان شاء اللہ
(پاکستان راہ حق پارٹی،پیپلز پارٹی میں سرگرم علماء کرام،جے یوآئی کے پی ٹی آئ سے اتحاد،پیر مظہر شاہ کی کشمیری سیاست میں ہلچل مچا دینے والی انٹری اور دیگر اہم ایشوز ان شاءاللہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے)

Related Posts