افغانستان اور گمراہ کن تجزیے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان کا تجزیہ پاکستانی مائنڈ سیٹ کے ساتھ کرنے والے ہمیشہ بڑی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ سو افغانستان سے متعلق آج کل جو نام نہاد تجزیئے پڑھنے کو مل رہے ہیں ان میں بھی دو بڑی ٹھوکریں صاف نظر آرہی ہیں۔ پہلی یہ کہ “افغان خانہ جنگی” کسی مدرسہ برانڈ افغان عسکری تنظیم کی پیداوار ہے۔ یہ ٹھوکر اس لئے لگتی ہے ہر افغان کمانڈر کے سر پر پگڑی یا ٹوپی جبکہ چہرے پر داڑھی ہوتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ خود ہی اخذ کر لیا جاتا ہے کہ یہ ضرور حقانیہ کا کوئی فاضل ہوگا۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ افغان خانہ جنگی میں کوئی بھی مدرسہ برانڈ ملوث نہیں رہا۔ یہ صرف یونیورسٹی برانڈز کی ہی دین ہے۔ سوویت انخلاء کے بعد خانہ جنگی میں حصہ لینے والوں میں ایک بھی ایسا کمانڈر ملوث نہ تھا جو مولانا بھی ہو۔ مدرسے والا حقانی تو کابل جا جا کر ان کی صلح کرانے کی کوشش کرتا رہا اور ناکام ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ کہ” طالبان” کی صورت مدرسہ برانڈ ابھرا اور اس کا ہدف خانہ جنگی کا ہی خاتمہ تھا۔ ان کی تحریک خانہ جنگی کا ہی ردعمل تھی۔ جب یہ اٹھے تو پشتون بیلٹ میں لوگوں نے “ملا” کے احترام میں بنا لڑے ہتھیار حوالے کردئے۔ اور وجہ یہی تھی کہ اس بیلٹ میں ملا کی ہی سنی اور مانی جاتی ہے۔ طالبان جب اس شمال میں پہنچے جہاں ملا نہیں بلکہ یونیورسٹی سے ابھرنے والے “قائد” کی سنی جاتی ہے تو مسلح مزاحمت شروع ہوگئی۔ سو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بھی از خود فرض کرلیا گیا ہے کہ چونکہ پنجاب اور سندھ میں مولوی کی سماجی حیثیت صفر ہے لھذا فغانستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے، وہاں پشتون بیلٹ میں ملا وہ قابل احترام ہستی ہے جس سے لوگ لڑنا بھی اخلاقی جرم سمجھتے ہیں۔

دوسرا مغالطہ حالیہ تجزیوں میں یہ نظر آرہا ہے کہ افغان پشتونوں کو “قوم پرست” تصور کر لیا گیا ہے۔ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں بٹھا لینی چاہئے کہ قوم پرست افغانستان کی پشتون بیلٹ میں بھی ایک اقلیت ہیں۔ اگر یہ اقلیت نہ ہوتے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طالبان امریکہ کے خلاف کامیابی حاصل کرپاتے۔ کیا حامد کرزئی یا اشرف غنی ایک دن کے لئے بھی پشتون بیلٹ پر حکومت کر سکے ؟ نہیں ! کیونکہ افغانستان کے پشتون قوم پرست نہیں بلکہ مذہب پرست ہیں اور وہ مذہبی پیشوا سے نہیں لڑتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسفندیار ولی سے لے کر محمود خان اچکزئی تک سارے پاکستانی پشتون قوم پرست طالبان کی نفرت میں روس کے بعد امریکہ کے بھی کاسہ لیس بن گئے مگر اس بار بھی خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔

طالبان نے اپنے پچھلے دور میں جو بڑی غلطی کی تھی وہ نیشنلزم کی نہیں بلکہ “قندھارازم” کی تھی۔ وہ ہر محکمے اور صوبے میں قندھاریوں کو بالادستی دیتے گئے تھے۔ یہاں تک یہاں اسلام آباد میں جب غیر قندھاری سفیر بھیجا تو اس پر بھی ایک قندھاری لونڈے کو مسلط کردیا۔ اور یہ قندھار ازم انہوں نے پوری پشتون بیلٹ میں بھی روا رکھا جو ان کی ایک بڑی غلطی ثابت ہوا تھا۔ ان کی اس حرکت کے پیچھے یہ وجہ کار فرما ہوسکتی ہے کہ یہ تحریک قندھار سے اٹھی تھی تو وہ سو فیصد بھروسہ صرف قندھاریوں پر ہی کر رہے تھے۔ اور ویسے بھی یہ ان کی تحریک کا ابتدائی عرصہ تھا۔ ٹپکل پاکستانی مائنڈ سیٹ رکھنے والے تجزیہ کاروں سے دست بستہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ افغانستان کا تجزیہ کرتے وقت یہ بات مت بھولیں کہ وہ ایک مکمل قبائلی معاشرہ ہے اور وہاں کا نظام اب بھی قبائلی نظام پر ہی استوار ہے۔ ان کے فیصلے قبائلی روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اور ان روایات کا کلید بردار ملا ہے۔سو قبائلی نظام کو سمجھے بغیر افغانستان کا درست تجزیہ ممکن ہی نہیں۔

حد تو یہ ہے کہ افغانستان کا تجزیہ چھوڑیئے ہمارے سکہ بند تجزیہ کار افغان پالیسی کے پس منظر میں پاکستان کے فیصلوں کا بھی درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آرہے ہیں۔ مثلا یہی دیکھ لیجئے کہ 2 جولائی کو امریکی صدر جو بائیڈن پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ روسڑم کے پس منظر میں بینر پر جلی حروف میں لکھا تھا “جابز پلان” صدر بائیڈن کی یہ پوری پریس کانفرنس کورونا وائرس کے بعد نئی ملازمتوں کے منصوبے پر ہی فوکس رہی۔ ان کی تقریر جوں ہی مکمل ہوئی صحافیوں نے پہلا ہی سوال افغانستان سے متعلق کردیا۔ صدر کے چہرے پر بدمزگی کے آثار ظاہر ہوئے مگر ضبط کر گئے اور ٹرخاؤ سا جواب دے کر جان چھڑا لی۔ مگر دوسرا سوال بھی افغانستان سے سے متعلق آگیا، پوچھا گیا

“کابل حکومت کو ایئرسپورٹ کی ضرورت پڑی تو کیا امریکہ یہ سپورٹ فراہم کرے گا ؟”

بائڈن نے جواب دیا

“اگر انہیں ایئرسپورٹ کی ضرورت پڑی تو ہم نے انہیں ایئرفورس بنا کردی ہے اس سے سپورٹ حاصل کریں”

تیسرے صحافی نے بھی منہ کھولتے ہی “افغانستان” کہا تو صدر بائیڈن بدک گئے۔ جھنجلا کر فرمایا

“میں افغانستان پر مزید کوئی سوال نہیں لوں گا۔ مجھ سے نیگیٹو سوالات نہ پوچھے جائیں۔ آج خوشی کا دن ہے۔ ہم نے آٹھ لاکھ پچاس ہزار نئی ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ مجھ سے اچھے اچھے سوالات کئے جائیں۔ افغانستان میں میں ہم بیس سال لڑ لئے۔ اب میں وہاں سے فوج نکال رہا ہوں۔ اور بگرام ایئربیس بھی خالی کر رہا ہوں”

اسے کہتے ہیں، میں تو کمبل چھوڑ رہا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ امریکی انخلاء کا “سچا دکھ” صرف دو گروہوں کو ہے۔ ایک کابل انتظامیہ اور دوسرے ہمارے وہ دیسی لبرلز جن کے اجداد کمیونسٹ ہوا کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی صحافی جس ایئرسپورٹ کے حوالے سے سوال پوچھ رہا تھا اس کے لئے طیارے کہاں سے اڑان بھریں ؟ پاکستان تو اڈے دینے سے انکار کرچکا۔ لیکن اس انکار کے باوجود دیسی لبرلز کے ایک قلمی “پلاٹون کمانڈر” سوشل میڈیا پر یہ کہہ کر امریکی اڈوے کی حمایت کرتے نظر آئے کہ “ہمارا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے لھذا یہ ہمارے حق میں جائے گا” اب اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ خدا ان صاحب کے ذاتی بال بال اپنی حفظ و امان میں رکھے ورنہ اپنے تصور کے مطابق تو انہیں ذاتی گھر میں بھی قرض خواہوں کو اڈے دینے پڑ جانے ہیں۔ ان اڈوں کے نتائج کیا نکلتے ہیں یہ کوئی ان جاپانی دو شیزاؤں سے پوچھے جنہیں امریکی فوجی 60 سال تک ریپ کرتے رہے اور جاپانی حکومت کو انہیں گرفتار کرنے یا سزا دینے کا بھی کوئی حق نہ تھا۔ یہی تماشا جرمنی کی لاکھوں خواتین کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے ابتدائی پانچ سالوں میں ہوا۔ ہزاروں جرمن خواتین نے صرف اس وجہ سے خود کشیاں کرلیں کہ ہم نے امریکی بچے کو جنم نہیں دینا۔ وہ تو یورپ تھا سو جلد خیال آگیا کہ ہمیں آگے چل کر “جسد واحد” بننا ہے لھذا یہ سلسلہ روکنا ہوگا ورنہ یورپ کے وسط میں ہی دشمنی کی جڑیں رحم مادر میں پڑنے سے جو مسائل پیدا ہوں گے وہ پھر حل بھی نہ ہوں گے۔ چنانچہ جرمن دوشیزاؤں کو تو امان مل گئی لیکن جاپانی دوشیزائیں اگلے ساٹھ سال تک امریکی اڈے پر ریپ ہوتی رہیں۔

مشرف دور میں اڈے پاکستان میں موجود رہے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کا کوئی کیس تو پیش نہیں آیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرف نے انہیں شہروں سے دور بیابانوں میں قائم اڈے دیئے تھے۔ لیکن ہمیں درپیش خطرات کچھ اور نوعیت کے ہیں۔ جب ایک ملک میں امریکہ کا فوجی اڈہ موجود ہو تو اس اڈے کی حفاظت کے لئے صرف فصیلیں اور ان پر قائم برجیوں میں سنتری ہی نہیں درکار ہوتے بلکہ سی آئی اے اور نیشنل انٹیلی جنس اس اڈے کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے اس ملک کے طول و عرض میں انٹیلی جنس نیٹورک بھی قائم کرتی ہیں۔ بظاہر آپ سے اپنے اڈے کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے یہ جال پھیلانے کی بات کی جاتی ہے لیکن درحقیقت یہ حفاظتی نہیں بلکہ جارحانہ مقاصد کے لئے ہوتا ہے۔ وہ آپ کے نظام میں سرایت کرکے ان اہداف تک نقب زنی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں جن کی تاک میں وہ چالیس سال سے ہیں۔ کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ ہمارے ایٹمی اور میزائل پروگرام ان کے اہم اہداف ہیں ؟ کیا نائن الیون سے عین قبل تک وہ ہم سے “رول بیک” کے مطالبے نہیں کرتے رہے ؟ اور کیا یہ انٹیلی جنس رپورٹس نائن الیون کے بعد بھی نہیں آئیں کہ افغانستان میں موجود یو ایس سپیشل فورسز کا اصل مشن پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے ؟ ہمارے دیسی لبرلز کی منافقت کا تو یہ عالم ہے کہ جب امریکہ سے یہ بات سامنے آئی کہ اس نے پاکستان سے اڈہ مانگا ہے تو انہوں نے سوشل میڈیا پر یہ موقف اختیار کرلیا کہ عمران خان کو یہودی اسی کام کے لئے لائے تھے، دیکھ لینا یہ اڈے دیدے گا۔ جب خان نے انکار کردیا تو دیسی لبرلز کا موقف تبدیل ہوکر یہ ہوگیا کہ اسٹیبلیشمنٹ اڈے دینا چاہتی ہے، خان کے انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جب اسٹیبلیشمنٹ نے پارلیمنٹ کو اس مسئلے پر بریفنگ دے کر اس سے فیصلہ مانگا تو اس سے واضح ہوگیا کہ اسٹیبلیشمنٹ بھی انکار ہی چاہتی ہے مگر چاہتی ہے کہ یہ انکار پارلیمنٹ سے ہو تاکہ یہ محض حکومتی نہیں بلکہ “قومی موقف” بن سکے۔ چنانچہ دیسی لبرلز نے تیسری قلابازی لگاتے ہوئے یہ موقف اختیار کرلیا کہ امریکہ نے تو اڈے مانگے ہی نہیں تھے، انہوں نے تو صرف کوریڈور مانگا تھا۔ یہ تیسری قلابازی کھسیانی بلی کا کھمبا نوچنا ہے۔ کیونکہ ایئر اور گراؤنڈ کوریڈور تو امریکہ کو بیس سال سے دستیاب ہے۔ ان کی سپلائی لائن پاکستان میں ہی رہی ہے۔ اسے کوریڈور مانگنے کی کیا ضرورت ؟ مانگی تو وہ چیز جاتی ہے جو دستیاب نہ ہو۔

Related Posts