آیئے پہلے ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ جب جامعۃ الرشید کے لئے زمین تلاش کی جا رہی تھی تو اس تلاش کے دوران “زہد و تقوی” کے کتنے کڑے معیارات رکھے یا ظاہر کئے گئے تھے۔ مفتی عبد الرحیم اس کے اوّلین تعارفی کتابچے میں اس کی خبر کچھ یوں دیتے ہیں:
“جب دارالافتاء و الارشاد میں اللہ تعالی کی رحمت اور حضرت اقدس دامت برکاتہم کی برکت سے خدمات دینیہ میں روز افزوں حیرت انگیز ترقی ہونے لگی اور مزید کئی شعبے کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی جن کیلئے موجودہ عمارت ناکافی تھی تو حضرت والا کے تلامذہ، خلفاء اور بعض مخلصین اصحاب خیر نےاجتماعی کوشش و اصرار کے بعد حضرتِ والا سے وسیع رقبہ پر تعمیر کی اجازت حاصل کرلی۔ کمشنر کو اس کا علم ہوا تو اس نے دارالافتاء و الارشاد کی وسیع تعمیر کے لئے بہت بہترین موقع پر رفاہی اراضی کے 10 ایکڑ پیش کئے۔ حضرتِ والا نے معذرت فرما دی۔ بعد میں ارشاد فرمایا:
حکومت کی طرف سے رفاہی اراضی قبول کرنے میں یہ مفاسد ہیں:
1- میں کسی حال میں بھی حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی احسان قبول کرنے کو تیار نہیں۔
2- رفاہی اراضی لینے والوں کے لئے حکومت کی طرف سے کئی شرائط کی پابندی لازم ہے۔ میں صرف اپنے اللہ کے احکام کا پابند ہوں، کسی غیر کی طرف سے کوئی پابندی قبول نہیں کر سکتا۔رفاہی اراضی لینے والے عموماً حکومت کی عائد کردہ پابندیوں سے بچنے اور حکام کو خوش رکھنے کے لئے ناجائز تدابیر اختیار کرتے ہیں، اس میں تین گناہ ہیں:
1- حکومت کے قانون کی خلاف ورزی۔
2- فساق و فجار حکام سے روابط قائم کرکےاور ان سے خلافِ قانون مراعات حاصل کرکےاپنے دین کو سخت خطرہ میں ڈالنا۔
3- ناجائز تدابیر اختیار کرنا۔”
یہ پوری عبارت جو از اوّل تا آخر بظاہر زہد و تقوی کا اعلیٰ معیار پیش کرتی نظر آتی ہے کئی تضادات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً ایک طرف تقویٰ کے ساتویں آسمان پر بیٹھ کر فرمایا جا رہا ہے کہ رفاہی زمین قبول کرنے کی صورت میں حکومت کی شرائط کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور میں اللہ کے سوا کسی کی کوئی پابندی قبول نہیں کرسکتا۔ لیکن پھر اگلی ہی سانس میں رفاہی زمین لینے والوں کے تین گناہ ذکر کرتے ہوئے ان کا پہلا گناہ یہ بتاتے ہیں “حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کرنا” اس میں تضاد یہ ہے کہ جسے حضرتِ والا پچھلی سطر میں “حکومت کی شرائط” بتا رہے ہیں وہ شرائط قانون ہی کہلاتی ہیں۔ جب قانون کی خلاف ورزی کو آپ گناہ سمجھتے ہیں تو پھر انہی قانونی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کیوں کر رہے ہیں ؟ دوسری بات یہ کہ جب آپ اللہ کے سوا کسی غیر کی پابندی قبول کرنے سے انکاری ہیں تو حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کو گناہ کیوں بتا رہے ہیں ؟ کیا حکومت “اللہ کے سوا” نہیں ؟ ظاہر آپ یہ کر رہے ہیں کہ آپ اللہ کے سوا کسی کی پابندی تسلیم نہیں کرتے اس لئے حکومت کی کوئی مدد قبول نہیں اور پھر حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کو گناہ بھی بتاتے ہیں۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ میں اللہ اور حکومت دونوں کی پابندیوں کو قبول کرتا ہوں۔ اس بے تکی للّٰہیت سے یہ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں ؟
درج بالا عبارت میں سب سے دلچسپ تو دوسرے نمبر والا گناہ ہے۔ دارالافتاء و الارشاد کا 80 اور 90 کی دہائی والا ماحول تو ہم نے دیکھ رکھا ہے۔ آج کی نسل کیا جانے کہ اس کے گیٹ پر پہنچنے والے کی پہلے کیٹگری (قسم) ہی طے کی جاتی تھی کہ آنے والا صالحین میں سے ہے یا فساق و فجار کے قبیل سے ؟ یہ طے ہونے کے بعد ہی فیصلہ ہوتا تھا کہ آنے والے کے ساتھ سلوک کیا کرنا ہے ؟ داڑھی منڈھے چھوڑیئے ہم جیسے کھلی ڈلی طبیعت والے مدارس کے فضلاء بھی فاسق و فاجر کی ہی کیٹگری میں شامل سمجھے جاتے تھے۔ اپنا فون نمبر انگریزی میں بتاتے تھے تو فسق و فجور کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا تھا؟ یہی وجہ ہے کہ حضرتِ والا سے مصافحے کی اجازت کبھی نہ پا سکے۔ ان کے ہم بس درشن ہی کرسکتے تھے تاکہ کچھ نور بٹور کر اپنا فسق و فجور مانجھ سکیں۔ اسے بھی ہمارا فسق و فجور ہی سمجھئے کہ آج جب جامعۃ الرشید کے طلبہ کو “فساق و فجار حکام” کے بوسے لیتے دیکھتے ہیں تو ہماری بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ کہاں وہ وقت کہ ان سے تعلق استوار کرنا بھی بقول حضرتِ والا دین کو خطرے میں ڈالنا تھا اور کہاں یہ دن کہ اب انہیں حجرِ اسود کی طرح چوما جاتا ہے۔
تھوڑا آگے چل کر مفتی عبد الرحیم حضرتِ والا کا مزید ارشاد یوں نقل کرتے ہیں:
“میں کوئی بھی ایسا کام کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتاجس میں حکومت کے زیر احسان ہونا پڑے، یا قانونی پابندیوں میں رہنا پڑے، یا کوئی کام خلاف قانون کرنا پڑے، یا فساق و فجار حکام سے روابط رکھنے پڑیں، یا ناجائز تدابیر اختیار کی جائیں، اللہ کے قانون کے اندر رہتے ہوئے کوئی چیز ملتی ہے تو وہ نعمت ہے ورنہ عذاب۔”
اس ارشاد کے اس جملے پر غور کیجئے “یا قانونی پابندیوں میں رہنا پڑے، یا کوئی کام خلاف قانون کرنا پڑے” یعنی قانون کی پابندی بھی نہیں کرنی اور قانون کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنی۔ اہلِ تصوف سے سنا ہے کہ جب کوئی شیخ کسی کارِ محال کا دعویٰ کرے تو سمجھ لو کہ کرامت ظاہر ہو رہی ہے۔ حضرتِ والا کے اس ارشاد کا رو بعمل ہونا عقلاً تو کار محال ہی ہے۔ اسی طرح اگلا جملہ دیکھئے ” یا فساق و فجار حکام سے روابط رکھنے پڑیں، یا ناجائز تدابیر اختیار کی جائیں” قابلِ غور بات یہ ہے کہ سارے کبیرہ گناہ حرام کے درجے میں آتے ہیں۔ ناجائز کی اصطلاح صغیرہ گناہوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ سو ہمیں بتایا یہ جا رہا تھا کہ دارالافتاء و الارشاد میں ملائکہ معصومین کے ڈیرے ہیں جو صغائر سے بھی دور ہیں۔ سو یقینا اس زمانے میں بجلی، ٹیلیفون، پانی، سیوریج، پولیس اور بلدیہ کے محکموں نے ناظم آباد سات نمبر کے لئے اولیاءاللہ ہی بطور اہلکار بھرتی کر رکھے ہوں گے جو اس ادارے کی شکایات دور کرنے جاتے رہے ہوں گے۔ کیونکہ فساق و فجار حکام سے روابط کا تو وہاں تصور ہی نہ تھا۔ ایک نظر اس ارشاد گرامی پر بھی ڈالتے جایئے “اللہ کے قانون کے اندر رہتے ہوئے کوئی چیز ملتی ہے تو وہ نعمت ہے ورنہ عذاب”اب اس سوال کا جواب ہم انہی حضرات پر چھوڑ دیتے ہیں کہ “حادثاتی بورڈ” انہوں نے اللہ کے کس قانون کے اندر رہتے ہوئے حاصل کیا ہے ؟ اللہ کا قانون تو نظم اجتماعی توڑنے سے منع کرتا ہے جبکہ یہ حضرات اس بورڈ کی صورت اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔
اب آیئے ایک بہت ہی اہم مقدس راز کی جانب۔ اور وہ یہ کہ حضرت مفتی عبد الرحیم جیسے نابغہ روزگار اپنے حضرتِ والا کو کس طرح دستیاب ہوئے ؟ اور حضرتِ والا کو کس درجہ یقین تھا کہ یہی وہ من جانب اللہ عطاء ہونے والا شیخ الجبال ہے جو ان کا بار امانت اٹھانے کا اہل ہے۔ 1996ء کے اس تعارفی کتابچے میں حضرتِ والا فرماتے ہیں:
“میرے قلب میں سب سے زیادہ اہمیت اپنا ایسا وصی مقرر کرنے کی تھی جو میرے انتقال کے بعد دارالافتاء و الارشاد میں تربیت علمیہ و عملیہ کا معیار معہود قائم رکھ سکے۔ میں اس معاملے میں بہت متفکر رہتا، جستجو اور دعاؤں کا سلسلہ بائیس سال تک جاری رہا، کوئی شخص بھی اس معیار کا نظر نہیں آرہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ کبھی پریشانی بہت بڑھ جاتی تو یوں مراقبہ کرتا: “اگر میں کوئی وصی مقرر کئے بغیر مر گیا اور آخرت میں اس بارہ میں مجھ سے سوال ہوا تو میرے پاس یہ جواب موجود ہے: “اے اللہ مجھے انتہائی کوشش اور مسلسل دعاؤں کے باوجود کوئی ایک شخص بھی صحیح معیار کا نہ ملا، اس لئے میں نے اس معاملہ کو تیرے ہی سپرد کردیا، یہ میرا کام تو تھا ہی نہیں، تیرا کام تھا ، بس تو جانے اور تیرا کام۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر میں نے کسی غیر معیاری شخص کو وصی بنا دیا ، پھر آخرت میں مجھ سے سوال ہوا کہ نالائق کو وصی کیوں بنایا ؟ تو اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ بائیس سال تک مسلسل دعاؤں اور انتھک جستجو کے علاوہ تین سال تک مفتی عبد الرحیم صاحب کو ہر طرح خوب پرکھا، علم و عمل کی تربیت صحیحہ کے بارہ میں بہت سخت ترین امتحانات لئے، خوب ٹھونک بجا کر دیکھا، اصلاح ظاہر و باطن بالخصوص حب دنیا سے قلب کی تطہیر کے لئے میں نے تین سال تک ان سے بہت ہی سخت مجاہدات کروائے، خوب خوب رگڑائی کی۔۔۔۔۔۔۔ ان حالات سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ان کے دارالافتاء و الارشاد میں قدم رکھتے ہی اللہ تعالی نے ان کے قلب کو حب جاہ و حب مال سے پاک فرما دیا تھا، جبکہ یہاں پہنچنے سے قبل اس قلب سے حب دنیا کی نجاست گٹر کی طرح ابل رہی تھی، من جانب اللہ قلب کے اس قدر محیر العقول تطہیر کے باوجود مزید تثبت و رسوخ کی غرض سے میں نے مستعینا باللہ ان سے تین سال تک بہت سخت مجاہدات کروائے اور آزمانے کے لئے سخت ترین امتحانات لئے۔ اس کے بعد ان کے بارہ میں اطمینان ہوگیا کہ یہ انشاءاللہ تعالی دارالافتاء و الارشاد میں تربیت علمیہ و عملیہ کے معیار معہود کو قائم رکھ سکیں گے۔ عین مطابق نہیں تو قریب تر ہی سہی۔ ۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے ان کو اپنا وصی مقرر کردیا”
پچیس برس قبل لکھے گئے اس مبالغۃ الآراء ارشاد گرامی کو دیکھیں اور آج کے اس جامعۃ الرشید کو جہاں یہی مفتی عبدالرحیم اپنے حضرتِ والا کے “معیار معہود” کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہیں تو چار باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرتِ والا کی بائیس سالہ دعائیں کسی کام نہ آئیں۔ دوسری یہ کہ حضرتِ والا کی جس رگڑائی، مجاہدات اور سخت ترین امتحانات میں مفتی عبد الرحیم پاس ہوگئے تھے وہ سب حضرتِ والا کی ایک بڑی خوش فہمی تھی۔ تیسری یہ کہ حضرتِ والا سرے سے مردم شناس ہی نہ تھے۔ اور چوتھی یہ کہ حضرتِ والا کے کشف و کرامات بھی انہیں ان کی زندگی کے سب سے بڑے فراڈ کا شکار ہونے سے نہ بچاسکے۔
اور یہ “حب مال و حب جاہ” والی باتیں تو کسی سنگین مذاق سے کم نہیں۔ حضرتِ والا کی صورتحال یہ تھی کہ 90 کی دہائی میں 80 لاکھ کی شیورلیٹ میں سفر فرماتے اور اسے چھونے والے سے پانچ روپے جرمانہ وصول فرماتے مگر حبِ مال سے پاک صاف بھی تھے۔ حبِ مال کیا، ان کی تو “حبِ شیورلیٹ” اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ اسے چھونے پر جرمانہ طلب کرتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنی ہر تصنیف پر اپنی زیر نگرانی اپنا نام “فقیہ العصر حضرتِ اقدس مفتی رشید احمد دامت برکاتہم” لکھواتے لیکن حضرت کو حبِ جاہ بالکل نہ تھی۔ اسی طرح ان کے معیار معہود کا بھرکس نکالنے والے خلیفہ اجل عمرے یا حج کو جائیں تو قیام مکہ ٹاور میں فرماتے ہیں مگر حبِ مال سے بالکل پاک ہیں۔ ان کا ادارہ حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ یونیورسٹی نہیں ہے اور انہوں نے ویب سائٹ پر خود کو اس کا “ریکٹر” لکھوا رکھا ہے مگر ہیں حبِ جاہ سے بالکل پاک و صاف۔ شاید حافظ نے ایسے ہی کسی موقع پر کہا تھا۔
بسوخت دیدہ زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیں: دینی مدارس، عصری تعلیم اور تازہ فریب-تیسری قسط