بنگلہ دیش پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ امیر ملک کیسے بن گیا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بنگلہ دیش پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ امیر ملک کیسے بن گیا؟

ماضی میں مشرقی پاکستان کہلانے والا بنگلہ دیش سن 1971ء میں سالہا سال کی محرومیوں اور ایک تلخ خانہ جنگی کے بعد ایک الگ ملک بن گیا۔ بنگالی قوم کی بڑھتی ہوئی آبادی، طوفان اور دیگر معاشی مسائل کے باعث امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر نے ملک کو کوڑے دان قرار دیا تھا۔

رواں برس بنگلہ دیش نے آزادی کی 50ویں سالگرہ منائی اور متعدد معاشی اعشاریوں کے اعتبار سے یہ ملک آج پاکستان سے کہیں آگے ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق بنگلہ دیشی معیشت رواں مالی سال کے دوران 322 ارب ڈالرز تک جاپہنچے گی۔

آج ایک عام بنگلہ دیشی شہری کا پاکستانیوں سے مقابلہ کیا جائے تو وہ کہیں زیادہ امیر نظر آتے ہیں۔ رواں ماہ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی میں گزشتہ 1 مالی سال کے دوران 9 فید کا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں ہر شخص کی فی کس سالانہ آمدنی 1 ہزار 543 ڈالرز ہے جس کے مقابلے میں بنگلہ دیشی شہری سالانہ 2 ہزار 227 ڈالرز آمدن رکھتے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان بنگلہ دیش کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ امیر تھا اور آج بنگلہ دیش پاکستان سے 45 فیصد زیادہ امیر ہے۔

بھارت بھی فی کس آمدن کے اعتبار سے بنگلہ دیش سے غریب ملک ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بھارت کی فی کس آمدن 1 ہزار 947 ڈالر تھی۔ ترقی کے میدان میں بنگلہ دیش نے پاکستان اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

دنیا کی 26ویں بڑی معیشت بننے والا بنگلہ دیش سن 2017ء میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (انسانی ترقی کے میزان) پر 0 اعشاریہ 608 کے درجے پر تھا جبکہ 2018ء میں پاکستان کا یہی میزانیہ 0 اعشاریہ 560 پر رہا۔

میزانیے کی یہ صورتحال پاکستان کو اوسط درجے کی انسانی ترقی کے معیار پر لاکھڑا کرتی ہے۔ افراطِ زر کے باعث پاکستان میں آمدن کے عدم استقلال کا درجہ 25 اعشاریہ 6 ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ عالمی بینک کے مطابق بنگلہ دیش آمدن کے یہ مسائل بے حد کم ہیں۔

غیر ملکی امداد پر بھی بنگلہ دیش کا انحصار بے حد کم ہوا ہے۔ 1972ء میں بنگلہ دیش کا 88فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ پاکستان غیر ملکی قرضوں اور امداد پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہے۔ امریکا اور دیگر عالمی اداروں کے قرضوں نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

بنیادی طور پر بنگلہ دیشی معیشت 3 ستونوں پر قائم ہے جن میں برآمدات، سماجی ترقی اور مالیاتی انتظام کاری شامل ہے۔ 2011ء سے لے کر 2019ء تک بنگلہ دیش کی برآمدات میں سالانہ 8 اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ کامیابی ملک کی ریڈی گارمنٹ صنعت کے باعث ممکن ہوئی۔ مارچ 2021ء کی رپورٹ کے مطابق مک کنسی اینڈ کو کا کہنا ہے کہ گارمنٹس کی صنعت ملکی برآمدات کا 84فیصد پیدا کرتی ہے۔

گزشتہ 10 سال کے عرصے میں بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی صنعت کے باعث سالانہ شرحِ نمو میں 7 فیصد تک مسلسل اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیشی خواتین بھی ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

بھارت اور پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں خواتین کی تعداد کم ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش میں عوامی قرض کا جی ڈی پی کے مقابلے میں تناسب 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے جبکہ پاکستان اور بھارت میں یہ شرح 90 فیصد تک جاپہنچتی ہے۔

زرِ مبادلہ کے حصول کیلئے بنگلہ دیش کا دوسرا بڑا ذریعہ اس کے سمندر پار شہری ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران بنگلہ دیش کو ترسیلاتِ زر کے طور پر 20 ارب ڈالرز موصول ہوئے جو ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

بنگلہ دیش کو غیر قانونی ہنڈی اور دیگر ذرائع سے آمدنی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں یہ زرِ مبادلہ حاصل ہوا جبکہ بھارتی معیشت آزادی کے بعد سے لے کر اب تک بد ترین دور سے گزر رہی ہے جس میں 7 اعشاریہ 3 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔

اسی دوران بنگلہ دیش کی معیشت میں مالیت کا 5 اعشاریہ 8 فیصد اضافہ ہوا۔ 25 مئی کے روز بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نے سری لنکا کے ساتھ کرنسی کے مبادلے کے طور پر 20 کروڑ ڈالرز کی گرانٹ منظور کی۔ بنگلہ دیش کا زرِ مبادلہ 45ارب ڈالرہے جبکہ سری لنکا 4 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز پر موجود ہے۔

سیاسی استحکام بھی بنگلہ دیشی معیشت کی ترقی کی بڑی وجہ ہے۔ اسلامی شدت پسندوں اور دیگر جنگجو گروہوں پر کیے گئے کریک ڈاؤن کی بدولت یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ قبل ازیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہورہی تھیں جن پر قابو پایا گیا۔ یہ تمام باتیں پاکستان کیلئے ایک سبق ثابت ہوسکتی ہیں کہ گزشتہ برسوں میں کیا غلط ہوا اور اس پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

Related Posts