کورونا لاک ڈاؤن سے تنگ تاجر برادری نے سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سندھ حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا جس کے بعد وفاق اور صوبے کے مابین نئی محاذ آرائی شروع ہوگئی۔
سندھ میں گورنر راج کا مطالبہ نیا نہیں ہے۔ قبل ازیں یہ مطالبہ پی ٹی آئی کی جانب سے کیا گیا اور اب تاجر برادری کر رہی ہے تاہم دونوں جانب سے کیے گئے ایک ہی مطالبے کے مقاصد الگ الگ تھے۔
پی ٹی آئی سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جگہ اپنے نمائندگان لا کر نئی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے جبکہ تاجر برادری کا مقصد صرف اور صرف کاروبار کا فروغ ہے، اور کچھ نہیں۔ آئیے مختلف حقائق مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وفاق کااگلا قدم کیا ہوگا۔
تاجر برادری کے مطالبات
آج سے 2 روز قبل کراچی کے تاجر رہنماؤں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیرِ اعلیٰ اگر ہمارے مطالبات نہیں مانتے تو گورنر راج نافذ کیا جائے۔ تاجر رہنما شرجیل گوپلانی کا کہنا تھا کہ ہم وزیرِ اعلیٰ سندھ کو تاجروں کے مسائل پر درجنوں خطوط ارسال کرچکے لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاجر رہنما الیاس میمن کا گزشتہ روز کہنا تھا کہ حکومت بچ رہنے والے 48 گھنٹوں میں ہمارے مطالبات پورے کرے، اگر ریلیف نہیں دیا گیا تو احتجاج کیا جائے گا اور گفتگو سڑکوں پر ہو گی۔ رضوان عرفان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت تاجروں کی تذلیل بند کرے۔
رضوان عرفان کے مطابق تاجر برادری کا مطالبہ ہے کہ ہفتہ وار 2 کی بجائے صرف ایک چھٹی اور صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک کاروبار کی اجازت دی جائے۔
کاروبار کی صورتحال
کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے سندھ حکومت نے گزشتہ ماہ 25 مئی سے نائٹ لاک ڈاؤن نافذ کردیا جس کے تحت رات 8 بجے کے بعد شہری غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔
اسی روز 25 مئی کو ملیر کے علاقوں مراد میمن گوٹھ، قائد آباد اور ابراہیم حیدری میں 50سے زائد دکانیں سیل کی گئیں، شام 6 بجے کے بعد اشیائے ضروریہ کے علاوہ کسی کاروبار کی اجازت نہیں جس کے باعث کاروباری برادری پریشان ہے۔
ایم کیو ایم (پاکستان) کا اقدام
متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کا وفد وزیرِ اعظم عمران خان سے کل ملاقات کرے گا جس میں تاجروں کی طرف سے گورنر راج نافذ کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور آئے گی۔
میڈیا ذرائع کادعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم وفد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سرکردگی میں گورر سندھ عمران اسماعیل، ایم کیو ایم رہنماؤں عامر خان، وسیم اختر، وفاقی وزیر امین الحق اور دیگر بھی موجود ہوں گے۔
معاشی مسائل اور تاجر برادری
سب سے بڑا مسئلہ جو تاجر برادری کو درپیش ہے وہ کاروبار کا نہ ہونا ہے۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن اور ایس او پیز کے نام پر لگائی گئی پابندیوں کے تحت تاجر برادری اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہے۔
مڈل کلاس تاجر اپنی دکانیں نہیں خرید سکتے۔ کاروبار نہ ہونے کے باعث بجلی کے بل اور دکان کا کرایہ ادا نہیں کیا جاسکتا۔ سالہا سال پرانے کاروبار کی بندش سے گھروں میں فاقہ کشی بھی شروع ہوسکتی ہے جس کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔
میرج ہال ایسوسی ایشن کے خواجہ طارق کے مطابق شادی ہالز کے کاروبار سے منسلک افراد کا روزگار تباہ ہوچکا ہے۔ مسلسل تیسری عید پر بھی کاروبار بند ہونے کے باعث مزدور فاقہ کشی کا شکار ہیں جس پر حکومت نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
تاجر برادری رمضان المبارک کا انتظار کرتی ہے اور جائیدادیں گروی رکھ کر سرمایہ کاری کرتی ہے لیکن حکومت نے رواں برس رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بھی کاروبار کی اجازت نہیں دی۔
یومیہ 40 لاکھ روپے کمانے والی تاجر برادری اگر گھر میں بیٹھ جائے تو اس سے معیشت کا نقصان ضرور ہوتا ہے۔ تاجر برادری کے مطابق پولیس گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پولیس گردی کے مسائل
لاک ڈاؤن کے نام پر تاجر برادری کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار کسی بھی دکاندار کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے۔
سرینا موبائل مارکیٹ کو سیل کردیا گیا تھا۔ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ ڈی سیل کرنے کیلئے 1 کروڑ روپے رشوت لی گئی۔ ضلع وسطی میں بھی رشوت ستانی عام ہے۔
صورتحال کا تدارک
سندھ حکومت کو چاہئے کہ تاجر برادری کو پولیس گردی سے بچائے۔ کاروبار کے اوقات 6 بجے سے 8 بجے کرنا اور ہفتے میں 2 کی جگہ 1 چھٹی کرنا کوئی بڑے مطالبات نہیں ہیں جن پر گفت و شنید ہوسکتی ہے۔