اسلام آباد:امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو اپنی ناکامیوں کا ادراک تک نہیں۔ ڈھائی سالہ حکومتی کارکردگی کو انقلابی قرار دے کر وزیراعظم نے قوم کے زخموں پر نمک چھڑکا۔
انہوں نے کہا کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری نے لوگوں کو ڈیپریشن کا شکار کر دیا ہے۔ حکومت کا سارا زور جھوٹ کے ذریعے میڈیا پروجیکشن ہے۔ اسمبلی میں موجود دو بڑی سیاسی جماعتوں نے موجودہ نظام کو سہارا دیا۔
ماضی کے حکمرانوں نے بھی ملک کو اندھیروں میں دھکیلا۔ وزیراعظم ملک کو این جی او کی طرح چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرونا کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہو چکی ہے۔ لاہور جیسے شہر میں بھی وینٹی لیٹرز ختم ہو گئے ہیں۔
عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں۔ قوم اجتماعی طور پر رجوع للہ کرے۔ تمام تکالیف کا ازالہ اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے ہی ہو سکتا ہے۔ ملک میں گزشتہ 73سالوں سے تمام نظام آزمائے جا چکے ہیں اب نظام مصطفیؓ کو موقع ملنا چاہیے۔
عوام آئندہ الیکشن میں آزمائے ہوئے چہروں کو رد کر دیں گے۔ جماعت اسلامی ایسا نظام چاہتی ہے جس میں غریب کا بچہ بہترین تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرے۔ اسمبلیاں جاگیرداروں اور وڈیروں کے کلبز بن چکی ہیں۔
عام پڑھے لکھے نوجوان کو اسمبلیوں میں لانا ہو گا۔ جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم ہر اس شخص کے لیے حاضر ہے جو پاکستان میں اسلامی نظام لانے کا خواہش مند ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے منصورہ میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی بیڈ گورننس اور انتہائی اہم قومی معاملات میں فیصلہ سازی میں غیر سنجیدگی کی مثال حالیہ واقعہ سے ہی لی جا سکتی ہے جس میں حکومت نے بھارت سے درآمدات پر پابندی کو اٹھانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، مگر قومی حلقوں اور عوامی تنقید پر 24گھنٹوں میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے تبدیلی کے نعرے سے مراد شاید وزرا اور بیوروکریسی میں بار بار تبدیلیاں ہیں۔ موجودہ حکومت میں اب تک چار دفعہ وزیر خزانہ تبدیل ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ پنجاب کے آئی جیز، چیف سیکرٹریز، ایف بی آر کے سربراہوں کو بھی بار بار تبدیل کیا گیا۔ وزیراعظم اب تک درجنوں کے حساب سے اپنے مشیران اور ایڈوائزرز تعینات کر چکے ہیں اور وزیروں اور مشیروں کی ذمہ داریوں میں بھی بار بار تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔
یہ ملک کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہو گا کہ وزیراعظم نے خود ہی الیکشن کمیشن پر تنقید کر کے اس کی جانبداری پر سوال اٹھایا ہو۔ حکومت نے ہائرایجوکیشن کمیشن کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادارہ کی چیئرمین کی مدت ملازمت میں صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے دو سال کی کمی کر دی گئی۔
حکومت کے فیصلہ پر تمام علمی حلقوں کی جانب سے تنقید ہو رہی ہے۔ حکومت نے احتساب کے نام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت وعدوں کے باوجود احتساب کا موثر نظام نافذ کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔