بدھ کے روز کوئٹہ میں ایک پرتعیش ہوٹل کے باہر خوفناک دھماکے ہوئے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے۔ اس شہر میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے متعدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں یہ شاید سب سے بڑا واقعہ تھا۔
اس حملے میں مبینہ طور پر چینی سفیر ہدف تھے،چینی سفیرکئی دنوں سے اس شہر میں موجود ہیں لیکن واقعے کے وقت بظاہر ہوٹل میں موجود نہیں تھے۔ اعلی سطح ہدف نے واقعے کو مزید گمبھیربنادیاہے اور یہ حملہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کو ظاہر کرتا ہے، اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرلی ہے حالانکہ وزیر داخلہ نے بتایا کہ ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ دھماکا ایک خود کش حملہ تھا اور اس میں بھاری مقدار میں 80سے 90 کلوگرام دھماکہ خیز مواداستعمال ہوا تھا تاہم حملہ آور ہوٹل کے مرکزی گیٹ تک نہیں پہنچا اور واقعہ کے بعد سیکورٹی الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔
ملک میں حالیہ دنوں میں ایک مذہبی جماعت کے احتجاج کے ساتھ افراتفری اور انتشار پھیلا جو اب تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور اب ہم ایک بار پھر دہشت گردی کے عالم میں ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کی لعنت کو نہیں اٹھنے دیں گے۔ قوم نے یقینی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بہت قیمت ادا کی ہے اور دہشت گردوں کو دوبارہ سراٹھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
حکومت نے ملک کی صورتحال کے لئے غیر ملکی عناصر کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ وزیر داخلہ کاکہنا ہے کہ بھارت میں ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیکورٹی کی صورتحال پر حکومت کو کس طرح گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا بند کرنا پڑا تھا
اس وقت یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شرپسند خاص طور پر بلوچستان کو نشانہ بنا کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح سی پیک منصوبہ معطل ہے اور اسکی بحالی کیلئے جدوجہد کی جارہی ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو اپنے مذموم مقاصدمیں کامیاب نہ ہونے دیں تاکہ ملک امن و خوشحالی کی راہ پر گامزن رہ سکے۔