وزیراعظم نے وفاقی کابینہ میں ایک بارپھرردوبدل کرتے ہوئے نامور معاشی ماہرین شوکت ترین کو ملک کا نیا وزیر خزانہ مقرر کردیاہے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان تیسری باروزیر خزانہ کو تبدیل کیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس تین سالوں میں چار وزرائے خزانہ رہے ہیں اورتحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم چھ بار وفاقی کابینہ میں ردوبدل کیا گیا ہے اور شائد یہی معاشی پالیسیوں میں عدم توازن کی وجہ ہے۔
شوکت ترین نے 2009 سے 2010 تک وزیر خزانہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں وہ پیپلز پارٹی کے دور کے دوسرے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں جو موجودہ دور حکومت میں معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔
انہوں نے نوجوان اور متحرک حماداظہر کی جگہ لی ہے ،حماداظہر کواچانک ہٹانا بھی حیرت انگیز ہے کیوں کہ وزیر اعظم ان کی کارکردگی سے مطمئن تھے اور چاہتے تھے کہ وہ طویل مدت تک برقرار رہیں جبکہ ایک مہینہ پہلے وزیر اعظم نے معاشی ماہر حفیظ شیخ کو ان کارکردگی سے مایوس ہونے کے بعد معزول کردیا تھا ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ترقی اوراستحکام کی طرف بڑھنا چاہتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے جس کے کیلئے شوکت ترین کی توثیق کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ حکومت نے ایک اور ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ کے عہدے پر مقرر کیا ہے۔ شوکت ترین پہلے ہی اقتصادی مشاورتی کونسل کا حصہ تھے اور انہیں ملک کے مالی امور کی دیکھ بھال کے لئے وزیرخزانہ مقررکردیا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ اقتصادی بحران کے لئے سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ حکومتوں کے آزمودہ لوگوں کو اہم ذمہ داریاں دی جارہی ہیں،حفیظ شیخ اور شوکت ترین دونوں پیپلزپارٹی کی حکومت میں خدمات انجام دیتے رہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے تحت وزیر خزانہ کی حیثیت سے شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پروگرام پر دستخط کیے اور اپنا بینک شروع کرنے کے لئے اپنی مدت ملازمت مکمل کیے بغیر عہدے سے دستبردار ہوگئےاور موجودہ دور میں وہ حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس وقت ملک کی معاشی نمو کی پیش گوئی 1اعشاریہ 5 فیصد مایوس کن ہے اور پاکستان نے پہلے ہی آئی ایم ایف سے 2 ارب ڈالر قرض لیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے تیسرے سال میں ایک نئی معاشی ٹیم تشکیل دی ہے جو معاشی پالیسیاں تیار کرنے کے لئے نئی شروعات کرے گی۔
اگرچہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے لیکن اسے کابینہ میں ردوبدل اور تجربات کی بجائے حقائق کو سمجھنا چاہئے اورحکومت کومختلف معاشی ماہرین کے ساتھ تجربات کرنے کی بجائے ایک مربوط معاشی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔