برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کاکہنا ہے کہ کورونا ویکسین کے پروگرام کی کامیابی کے پیچھے لالچ اورسرمایہ داری کا عنصر غالب ہے، یہ بات انہوں نے منافع بخش ادویہ ساز کمپنیوں کے حوالے سے کہی تاہم انہوں نے وبائی مرض میں کردار کے لئے دوا ساز کمپنیوں کی تعریف بھی کی تاہم اس بات سے انکار نہیں ہے کہ وبائی بیماری کے دوران سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں ادویہ ساز صنعت سرفہرست ہوگی ۔
کورونا وائرس ویکسین کی فراہمی میں بتدریج بہتری آ رہی ہے لیکن دو طرفہ معاہدوں یا قومی صحت کے پروگراموں کی وجہ سے یہ ویکسین مفت ہے۔ پاکستان میں حکومت نے نجی شعبے کو کورونا وائرس کی درآمد کرنے کی اجازت دیکر ایک تنازعہ پیدا کردیا ہے اور اب یقینی طور پر ملک میں ویکسین کے حوالے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
حکومت نے ویکسین کی قیمتوں کوبے قابو ہونے سے روکنے کیلئے سپوٹنک وی روسی ویکسین کی دو خوراکوں کی زیادہ سے زیادہ قیمت 8449 روپے اور چینی ویکسین فی انجکشن 4225 روپے مقرر کی ہے لیکن نجی شعبہ کی من مانیوں اور بدعنوانیوں کو دیکھتے ہوئے ویکسین کی من مانی قیمتوں پر فروخت کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ وہ نجی شعبے کو ویکسین کی خریداری کی اجازت دینے کی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ دنیا بھر کی حکومتیں یہ ویکسین بلا معاوضہ دے رہی ہیں کیونکہ یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان یہ پہلا ملک ہے جس نے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے ویکسین کی درآمد کا کام نجی شعبے کو سونپ دیاہے۔
سپوٹنک وی ویکسین کی عالمی قیمت 10 ڈالر فی خوراک ہے تاہم پاکستان میں تجارتی فروخت کے لئے منظور شدہ قیمت 160 فیصد زیادہ ہے۔ اس ویکسین کی قیمت بھارت میں 734 روپے ہے اور اس کی قیمت پاکستان میں 1500 روپے ہونی چاہئے لیکن نجی شعبہ بھاری قیمتیں لگا کر منافع حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی کورونا ویکسی نیشن کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے اور حکومت مزید ویکسین لینے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے تاہم ویکسین کی فروخت کی اجازت دیکر حکومت نے فارما انڈسٹری کو وبائی مرض کو منافع بخش کاروبار بنانے کی چھوٹ دیدی ہے۔
پاکستان کے غریب عوام بھاری قیمتوں پر ویکسین لگوانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور قیمتوں میں کمی لانی چاہئے اور ایک وبائی بیماری کے دوران منافع خوری اور عوام کا استحصال کرنے کی بجائے قیمتوں کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔