پی ڈی ایم اورسیاسی اتحاد کی تاریخ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بے شک وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج پی ڈی ایم کی جانب سے درپیش رہا، جو 11 رکنی اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی اتحاد ہے جو کسی بھی قیمت پر وفاقی حکومت کو سرکے بل گرانے کیلئے کمربستہ رہا۔ پی ڈی ایم کی تشکیل اور محرکات نے سیاسی تجزیہ کاروں کیلئے دلچسپ منظر نامہ پیش کیا کیونکہ اس میں اکیلے عمران خان کے خلاف ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما شامل ہوئے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کے بیانیے کو ہمیشہ یہ کہہ کر مسترد کیا کہ یہ بدعنوان اور ناجائز دولت کو بچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینے والے لٹیروں کا تکلیف دہ اتحاد ہے۔ وفاقی وزراء کی جانب سے پی ڈی ایم کو غیر فطری اتحاد بھی کہا گیا کیونکہ اس میں بد ترین سیاسی مخالفین بھی صرف احتساب سے بچنے کیلئے ایک دوسرے کے ہمنوا بن جو پی ڈی ایم کا واحد مقصد ہے۔سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کا سبب کیا تھا اور یہ اس کیلئے ذہن سازی کس نے کی؟ کیونکہ ن لیگ کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور پھر سیکولر ذہن کی حامل پی پی پی جیسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر آگئیں جو یہ کہتی دکھائی دیں کہ حکومت سیلیکٹیڈ ہے اور اسے گھر جانا چاہئے، یہ کوئی معمولی بات قرار نہیں دی جاسکتی۔

وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سیاسی اتحاد تخلیق کرنا یہاں کوئی نئی بات نہیں۔ اگر تاریخ سے مثال لی جائے تو ہمیں پاکستان قومی اتحاد نظر آتا ہے جو 1977ء میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا۔ یہ 9 سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں الگ الگ نظریات رکھتی تھیں جن میں سیکولر، اشتراکی، سوشلسٹ، قدامت پرست اور مذہبی جماعتیں شامل تھیں جن کے بنیادی نظریات میں ہی زمین آسمان کا فرق تھا۔ پھر بھی یہ جماعتیں ایک بلاک کے طور پر کام کرنے کیلئے رضامند ہوئیں۔ 2 سال تک ان سیاسی جماعتوں کا اتحاد جاری رہا یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں عنانِ اقتدار سنبھالی اور اگلی ایک دہائی تک ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ حکومت کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تمام سیاسی مخالفین کچل دئیے گئے یا پھر ان کا خاتمہ کردیا گیا۔ سوائے ان اسلامی ساتھیوں کے جو بظاہر نظامِ مصطفیٰ کیلئے کھڑے ہوئے تاہم درِ پردہ انہوں نے فوجی آمر کا ساتھ دیا۔ سیاسی جماعتوں کا اتحاد اس وقت منقسم ہوا جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر جمہوری قوتیں برسوں بعد کہیں جا کر یکجا ہونے میں کامیاب ہوئیں۔

کیا قومی اتحاد اور پی ڈی ایم کے مابین کوئی ہم آہنگی ہے؟ پی ڈی ایم اصرار کرتی ہے کہ ہم پر امن اور جمہوری ذرائع سے حکومت کو گھر بھیج دیں گے اور آئین کی عملداری بھی ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔ کبھی اِس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ بھٹو مخالف بیانیے کے علاوہ قومی اتحاد بھی ایسے ہی یک نکاتی ایجنڈے کو لے کرآگے آیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو یقینا ملک کے ایک مقبول ترین سیاسی رہنما تھے اور انہوں نے پاکستان کو ایک نیا آئین بھی دیا۔ ڈھاکہ شکست کے بعد مسلح افواج کے حوصلے بلند کرنے میں بھی بھٹو پیش پیش رہے اور عوامی تاثرات کے برخلاف معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا، بلاشبہ بھٹو دورِ حکومت 1973ء میں تیل کے بحران کا مقابلہ نہ کرپایا جس سے نئے معاشی مسائل پیدا ہوئے۔

دوسری جانب عمران خان کو بھی ایک تباہ حال معیشت ملی جو کورونا وائرس کے باعث مزید تباہ حالی کا شکار ہے۔ برآمدات مستحکم کردی گئیں تاہم اشیائے خوردونوش کی مہنگائی تاحال قابو میں نہیں لائی جاسکی۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر پی ڈی ایم عوامی ردِ عمل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی آئی ہے، تاہم پی ڈی ایم میں وائٹ کالر کارکنان کی کمی ہے اور تاجروں عوام الناس بھی اس کا زیادہ ساتھ دیتے نظر نہیں آتے۔ حکومت کے خلاف ناراضگی صرف سیاسی بیانات تک محدود ہے۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو 1983ء میں ہمیں ایک نیا سیاسی اتحاد نظر آیا۔ جنرل ضیاء الحق کے خلاف ملک گیر تحریک چلی۔ سندھ میں تو یہ صورتحال خانہ جنگی تک جا پہنچی تا وقتیکہ اسے بزورِ طاقت کچل نہ دیا گیا۔ تحریکِ بحالئ جمہوریت (ایم آر ڈی) کی تشکیل 1981ء میں عمل میں لائی گئی جو آج تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نواز تحریک سمجھی جاتی ہے۔ سیاسی اتحاد نے حکومت کے خلاف عملی جدوجہد شروع کی اور ابتدائی چند ہفتوں میں ہی 2 ہزار کے قریب افراد گرفتار ہوئے، 189 جاں بحق جبکہ 126 زخمی بھی ہوئے۔ مظاہرین کے خلاف ریاست نے فوجی طاقت اور جبرو استحصال کا ہتھیار استعمال کیا تاہم سیاسی دباؤ کے باعث جنرل ضیاء الحق کو غیر جانبدارانہ بنیادوں پر انتخابات منعقد کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ایم آر ڈی نے عوام اور ملک کے ممتاز رہنماؤں کو فوجی حکومت کے خلاف متحد کردیا۔ہزاروں سیاسی کارکنان جیل گئے اور بعد ازاں 1988ء میں جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے کے بعد ایم آر ڈی تحلیل ہو گئی۔

بلاشبہ پی ڈی ایم اور ایم آر ڈی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پی ڈی ایم کا احتجاج جمہوری حکومت کے دور میں شروع ہوا اور ایم آر ڈی جنرل ضیاء الحق کے خلاف کھڑی ہوئی تھی۔ پی ڈی ایم قیادت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے تحریک کے بنیادی اصولوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم واقعتاً جدوجہد کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور سڑکوں پر نکلنا ہوگا تاکہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے۔

پاکستان کی تاریخ میں اور بھی بہت سے سیاسی اتحاد قائم ہوئے۔ 1964ء میں مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے فاطمہ جناح کی حمایت کی جو جنرل ایوب خان کے خلاف تھیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی، اسلامی جمہوری اتحاد جو پیپلز پارٹی کے خلاف قائم ہوا، اور جمہوریت بحالی اتحاد جو جنرل مشرف کے دور میں قائم ہوا، سب اس میں شامل ہیں اور ہم نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) بھ یدیکھی جو 32 اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد تھا جو جنرل مشرف کے خلاف تھیں اور تحریکِ انصاف بھی اس میں شامل تھی جس نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم ان سیاسی اتحادوں کی فہرست میں کس جگہ رکھی جاسکتی ہے؟ حکومت کے خلاف مربوط حکمتِ عملی کے فقدان سے اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ گزشتہ ادوار کے سیاسی اتحاد نے تو آمروں کو اقتدار سے دستبرداری پر مجبور کیا۔ موجودہ پی ڈی اتحاد نیشنل الائنس کا دوسرا ورژن محسوس ہوتا ہے جو جمہوری اخلاقیات کیلئے نقصان دہ رہا جس کا معاشرے پر تباہ کن اثر ہوا۔ پی ڈی ایم میں ایم آر ڈی کی طرح پرزور احتجاجی تحریک شروع کرنے کی بھی صلاحیت مفقود نظر آتی ہے۔ سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جمہوری عمل اور سیاسی اتحاد کا جواز ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ سیاسی قوتوں کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا تاکہ انہیں اپنا درست مقام معلوم ہوسکے۔ 

Related Posts