پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات، اسلامی شریعت اور قانون

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات، اسلامی شریعت اور قانون
پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات، اسلامی شریعت اور قانون

شریعتِ اسلام کا سب سے بڑا مآخذ قرآنی آیات اور رسول اکرم ﷺ کی احادیث یا سنتِ نبوی ﷺ ہے جس کے بعد اجماع، قیاس اور اجتہاد کی اہمیت ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان میں دینِ اسلام کو مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب پر زبردستی مسلط کرنے کے واقعات جنہیں مختصراً جبری مذہب تبدیلی کہا جاسکتا ہے، بڑھ رہے ہیں جس پر علمائے اسلام کی خاموشی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

صوبہ سندھ پہلے ہی خلافِ اسلام رسوم و رواج کیلئے بدنام ہے جن میں قرآن سے شادی اور کاروکاری جیسی روایات کو آج تک ختم نہیں کیا جاسکا جہاں ایک کمسن ہندو لڑکی کویتا بائی کو نہ صرف اغواء کیا گیا بلکہ اس کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا گیا۔

فرض کریں کہ بچی نے اپنی مرضی سے بھی اسلام قبول کیا ہو تو اس کی عمر محض 13 سال ہے جسے قبولِ اسلام کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان شخص سے شادی بھی کرائی گئی جس کی پاکستان کا آئین و قانون اجازت نہیں دیتا۔ آئیے جبری مذہب تبدیلی کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

تبدیلئ مذہب کیلئے زور زبردستی، ایک اور مثال

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک مسیحی جوڑے کی بیٹی کا مذہب تبدیل کیا گیا۔ شوہر ملازمت پر گیا ہوا تھا جس کی غیر موجودگی میں بیٹی لاپتہ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی ڈھونڈتے رہے اور کچھ روز بعد پولیس نے بتایا کہ بچی کا مذہب تبدیل ہوگیا جس نے ایک مسلمان مرد سے نکاح کیا ہے۔

یہ واقعہ گزشتہ برس 2020ء میں پیش آیا۔ دونوں میاں بیوی نے کہا کہ ابھی ہماری بیٹی کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔ لڑکی کی ماں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی نابالغ ہے جسے ورغلا کر لے جانے والا شخص 44 سال کا ہے۔

بعد ازاں لڑکی نے عدالت میں حلف نامہ پیش کردیا جس میں دعویٰ کرتے ہوئے لڑکی نے کہا کہ میری عمر 18 سال ہے اور میں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا اور خوشی سے نکاح بھی کیا۔ 

جبری تبدیلئ مذہب کے خلاف قانون سازی اور سندھ اسمبلی 

آج سے تقریباً 5 سال قبل 24 نومبر 2016ء کو سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس کے تحت مذہب زبردستی تبدیل کروانے پر 5 سال قید کی سزا تجویز کی گئی۔

مذکورہ بل 2015ء میں فنکشنل لیگ کے رکنِ سندھ اسمبلی نند کمار گولکانی نے پیش کیا تھا جسے نومبر 2016ء میں منظوری حاصل ہوئی۔ بل میں کہا گیا کہ بالغ انسان کو مذہب کی تبدیلی پر غور کیلئے 21 روز کا وقت دیا جانا چاہئے۔

بل کے مطابق 18 سال سے کم عمری کی صورت میں مذہب کی تبدیلی کو جرم تصور کیا جائے  جبکہ جو شخص بھی مذہب کی جبری تبدیلی کیلئے سہولت کار بنے، اس کیلئے بھی 5 سال قید کی سزا رکھی گئی۔ زبردستی شادی کروانے والے افراد کیلئے 3 سال کی سزا اور جرمانہ بھی رکھا گیا۔ سندھ سے پہلے ایسا کوئی قانون کسی دوسرے صوبے سے منظور نہیں ہوا تھا۔ 

وفاقی سطح پر قانون سازی 

پاکستان میں جبری تبدیلئ مذہب میں ملوث افراد کیلئے 5 سے 10 سال قید کی سزا گزشتہ ماہ 8 فروری 2021ء کو تجویز کی گئی جو جبری تبدیلئ مذہب سے متعلق سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوئی۔

ذیلی کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر سکندر میندھرو کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں وزارتِ قانون، اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارتِ مذہبی امور کے نمائندے شریک تھے۔ جبری تبدیلئ مذہب کے خلاف قانون کیلئے مختلف دیگر تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

بعد ازاں کمیٹی نے وزارتِ انسانی حقوق و قانون کو 7 روز میں بل ڈرافٹ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ مذہب کی تبدیلی کے معاملے میں سہولت کار کیلئے بھی 3 سے 5 سال کی سزا تجویز کردی گئی۔ سکندر میندھرو کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں مذہب تبدیل کرنے کیلئے عدالتی طریقۂ کار نافذ ہے، یہاں اقلیتوں کو شکایت ہے کہ مذہب صرف شادی کیلئے تبدیل کرایا جاتا ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ 

دفترِ خارجہ کی تردید 

پاکستانی میڈیا نے جب جبری تبدیلئ مذہب کی خبریں سنانا شروع کیں تو عالمی سطح پر بھی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوئیں۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے 2 جنوری 2021ء کو اس حوالےسے ایک اہم بیان جاری کیا۔

ترجمان دفترِ خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں جبری تبدیلئ مذہب کا کوئی ادارہ جاتی وجود نہیں۔ رپورٹ کیے گئے الزامات پر تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر کیسز رپورٹ ہوئے یا پھر یہ عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ثابت ہوئی۔

زاہد حفیظ چوہدری نے برسلز کی ای یو ڈس انفو لیب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی پروپیگنڈا نیٹ ورک پاکستان کو بدنام کرنے میں ملوث ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض افراد اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے جبری تبدیلی کے کچھ واقعات رونما ہوئے لیکن اس میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث نہیں۔

واضح رہے کہ ترجمان دفترِ خارجہ نے یہ بیان اس وقت جاری کیا جب امریکی خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ہر سال پاکستان میں 1 ہزار لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کردیا جاتا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ ایسے واقعات کی اطلاع ملنے پر قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری کارروائی کرتے ہیں۔ 

سینٹر فار سوشل جسٹس کا بیان 

انسانی حقوق کی تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے سن 2020ء تک کے اعدادوشمار کے مطابق 16 برسوں میں 55 مسیحی لڑکیوں کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا گیا۔ ایسے 95 فیصد واقعات پنجاب میں ہوئے۔ سندھ میں زیادہ تر یہ واقعات ہندو برادری کے ساتھ پیش آئے جو آج کل مسیحی برادری کو بھی درپیش ہیں۔

سربراہ سینٹر فار سوشل جسٹس پیٹر جیکب نے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کے بعد والدین خوفزدہ ہو کر بچیوں کو سماجی رابطوں سے روک دیتے ہیں جس سے ان کی تعلیم بے حد متاثر ہوتی ہے۔ 

تصویر کا دوسرا رخ، پسند کی شادی 

دو سال قبل مارچ 2019ء میں دو ہندو بہنیں ڈہرکی سے لاپتہ ہوئیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ انہیں جبری مسلمان کرکے شادیاں کرادی گئیں تاہم 22 مارچ 2019ء کو لڑکیوں نے نکاح کیا اور میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ ہم نے نکاح اپنی مرضی سے کیا ہے۔

آگے چل کر دونوں بہنوں نے تحفظ فراہم کرنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ عدالت نے دونوں نو مسلم خواتین کو شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ مختلف سماجی تنظیموں نے ایسی 50 غیر مسلم لڑکیوں کی فہرست 2020ء میں پیش کی جنہوں نے 1 سال میں اسلام قبول کرکے پسند کی شادی کی تھی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اندرونِ سندھ سے تھا اور وہ قبولِ اسلام سے قبل ہندو مت کی پیروکار تھیں۔ 

اسلام کیا کہتا ہے؟

تمام تر واقعات اور حقائق کی روشنی میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں جبری تبدیلئ مذہب کے کیسز اتنے زیادہ نہیں ہیں جتنا کہ انہیں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ بالکل نہیں کہا جاسکتا کہ جبری مذہب تبدیلی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، اور اگر اس مسئلے کا بہت معمولی سی سطح پر بھی وجود ہے تو یہ ظلم ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے جس قرآنِ پاک میں ان الدین عندا للہ الاسلام فرمایا یعنی اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور دیگر کسی دین یا مذہب کی کوئی حیثیت نہیں اور اللہ اسے قبول نہیں فرمائے گا، اسی قرآنِ مجید میں لااکراہ فی الدین کے الفاظ بھی موجود ہیں یعنی دین میں کوئی زور زبردستی نہیں، اس لیے ہر پاکستانی کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔

Related Posts