شریعتِ اسلام کا سب سے بڑا مآخذ قرآنی آیات اور رسول اکرم ﷺ کی احادیث یا سنتِ نبوی ﷺ ہے جس کے بعد اجماع، قیاس اور اجتہاد کی اہمیت ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں دینِ اسلام کو مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب پر زبردستی مسلط کرنے کے واقعات جنہیں مختصراً جبری مذہب تبدیلی کہا جاسکتا ہے، بڑھ رہے ہیں جس پر علمائے اسلام کی خاموشی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
صوبہ سندھ پہلے ہی خلافِ اسلام رسوم و رواج کیلئے بدنام ہے جن میں قرآن سے شادی اور کاروکاری جیسی روایات کو آج تک ختم نہیں کیا جاسکا جہاں ایک کمسن ہندو لڑکی کویتا بائی کو نہ صرف اغواء کیا گیا بلکہ اس کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرایا گیا۔
فرض کریں کہ بچی نے اپنی مرضی سے بھی اسلام قبول کیا ہو تو اس کی عمر محض 13 سال ہے جسے قبولِ اسلام کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان شخص سے شادی بھی کرائی گئی جس کی پاکستان کا آئین و قانون اجازت نہیں دیتا۔ آئیے جبری مذہب تبدیلی کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
تبدیلئ مذہب کیلئے زور زبردستی، ایک اور مثال
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک مسیحی جوڑے کی بیٹی کا مذہب تبدیل کیا گیا۔ شوہر ملازمت پر گیا ہوا تھا جس کی غیر موجودگی میں بیٹی لاپتہ ہوئی۔ دونوں میاں بیوی ڈھونڈتے رہے اور کچھ روز بعد پولیس نے بتایا کہ بچی کا مذہب تبدیل ہوگیا جس نے ایک مسلمان مرد سے نکاح کیا ہے۔
یہ واقعہ گزشتہ برس 2020ء میں پیش آیا۔ دونوں میاں بیوی نے کہا کہ ابھی ہماری بیٹی کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔ لڑکی کی ماں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی نابالغ ہے جسے ورغلا کر لے جانے والا شخص 44 سال کا ہے۔
بعد ازاں لڑکی نے عدالت میں حلف نامہ پیش کردیا جس میں دعویٰ کرتے ہوئے لڑکی نے کہا کہ میری عمر 18 سال ہے اور میں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا اور خوشی سے نکاح بھی کیا۔
جبری تبدیلئ مذہب کے خلاف قانون سازی اور سندھ اسمبلی